شاہنواز خاں
سابق رکن بی پی ایس سی۔
9939403425۔
ہندوستان نے 26 جنوری کو راجدھانی کے کر تبیہ پتھ پر 74ویں یوم جمہوریہ کا جشن مناتے ہوے اپنی شاندار فوجی طاقت کا مضاہرہ کیا ۔ اور دنیا کو احساس دلا دیا کہ موجودہ ہندوستان, دنیا کے بڑےطاقتور ممالک کی صف میں کھڑا ہو چکاہے۔ تقریب میں مصر کے صدر مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے ،بلکہ مصر کی فوج کا ایک دستہ بھی پریڈ میں شریک تھا۔ ۔مصر کے صدر جناب عبدالفتاح ا لسی سی، ہندسان کی بڑھتی فوجی ، طاقت سے ضرور متاثر ہوے ہونگے۔
لیکن ہندوستان کی اس بدلی ہوی تصویر کو دیکھ کر وہ بے حد متحیر بھی یقینانا ہو رہے ہونگے ، اور دل ہی دل یہ سوچ کر نادم بھی ہوے ہونگے کہ ہہندوستان کہ متعلق جو بھی انہیں معلومات تھے وہ کتنے ناقص اور غیر حقیقی تھے۔ وہ تو جانتے تھے کہ ہندوستان ایک بڑا جمہوری ملک ہے جہاں مختلف مذاہب و عقیدت کے لوگ بستے ہیں اور ہندوستان کی تعمیر وتخلیق میں ان تمام لوگوں کے خدمات اور قربانیاں شامل ہیں یہاں تو 22-23 کڑور (یعنی انکے ملک مصر کی آبادی کے دوگنا سے زیادہ) مسلمان رہتے ہیں ۔ ،انکی تہذیب ، انکی ثقافت اور شناخت بھی ہوگی ۔انہوں نے تاریخ میں تو پڑھا تھا کہ مسلمانوں نے تقریبآ آٹھ سو سالوں قبل سے یہاں آباد ہو کر اسی سرزمین کی مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرما بنایا ، یہاں پیدا ہوے جیے، مرے اور یہیں دفن ہوے ۔ موجودہ نسل کی دس پشتوں قبل کی نسل بھی یہں پیدا ہوئ اور اسی مٹی میں دفن ہوی ہے ،حکمراں ہوں کہ صوفیان کرام ہوں ، بزرگان دین ہوں کہ علماے کرام ،ادبا،شعرا ،مدبرین ہوں کہ عام مسلمان ،سب کا وطن ،ملجا و ماوای یہی ہندوستان رہا ہے۔ پہر کیوں انکے وجود کی کوی جھلک ،کوی جھانکی تو دور دور تک کہیں نظر نہیں آئ۔
در اصل حکومت گذشتہ چند سالوں سے ہندوستان کی تصویر بدلنے کی کوشس میں ہی مصروف ہے ۔ اس سال اسی حکمت عملی کے تحت پورا زور تقریب میں مکمل طور پر ہندوستان کو صرف سناتنی دھرم اور ہندو ،دیوی دیوتاوں کے ہی ملک کے طور پر پیش کرنے میں صرف کیا گیا ہے ۔اس میں کوی قابل اعتراض اور تعجب خیز بات نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کی اکثریت 75 -80 فیصد آبادی کی آستھا، دیوی دیوتاوں میں ہے
۔ لیکن 20 / 25 فیصد لوگوں کی عقیدت انکی آستھا کو ایکدم سرے سے نظر انداز کردینا یا انکے جذبات کو پامال کرتے ہوے انکی پسند انکی آستھا ، انکے نشانات کو مٹانے کا عہد کرنا ، ، انکی آزادی سلب کیا جانا ، ان پر ہوے ظلم و بر بربریت پر بے توجہی کر شرر پسندی کو شہ دینا ، کیسے انصاف ہو سکتا ہے ? ” سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کے وشواس” کے ظاہری نعرے کو بھی تھوڑی تقویت ہی ملتی اگر مشترکہ تہذیب کی کسی علامت کو بھی ان جھانکیوں میں شامل کیا جاتا ۔
کیرل سے کشمیر تک ہر ریاست کی جھانکی ،سناتنی دھرم اور ہندو مذہب کی تشہیر پر مبنی تھی ، کیرل اور کشمیر کی مسلم آبادی کا ذرا بھی خیال کیا جاتا تو کشمیر کے اور نیں تو کسی صوفی سنت کے وجود کو ہی اگر جگہ دی جاتی تو بھی ہندوستان کی حقیقت کی لاج رہ جاتی ، اجمیر کے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر تو مسلمانوں سے زیادہ ہندو جاتے ہیں، حضرت نظام الدین اولیا او ر دوسرے صوفیوں نے تو پیغام محبت و مذہب انسانیت کی تبلیغ کو ہی اپنا نصب العین بنا کر اس ملک کے عام لوگوں کے دلوں پر راج کیا ، وہ تو حملہ ور نہیں تھے، اور نہ انہوں نے کسی مندر کو توڑا تھا ۔ انہوں نے تو اس ملک کے باشندو ں کے جذبات کی قدر کرتے ہوے اسلامی شرعیہ کے خلاف جاکر انکے رسم وراج اور انکی آستھا اور عقیدت کو بھی روا قرار دے کر ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشس کی ۔ اور یہہی وجہ ہے کہ آپ سناتم دھرم کا لاکھ پر چار کر لیں ہندؤں کی بھیڑ ان صوفیوں کے آستانوں پر بھی جمع ہوتی ہے۔ اور انکا صد احترام کرتی ہوئ ، اپنی منتیں مانتی ہے ہندوستان کی اس حقیقت کو کسی طاقت کے سہارے نہیں بدلا جا سکتا ہے۔
در اصل یہ سب کچھ لا شعوری طور پر نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی شازش ،منظم حکمت عملی اور ایک خاص عزم و ارادے کے تحت کیا جارہاہے۔ چونکہ ملک کی اکثریت سناتنی دھرم کی ہے اسی صورت حال کا استحصال کر جو لوگ اقتدار پر قابض ہوگئے ان کو لگ رہا ہے کہ اقتدار میں بنے رہنے کا یہی سب سے آسان نسخہ ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت میں سارا دار ومدار کثرت تعداد پر مبنی ہے ۔ اکثریت کا اعتماد چاہے جس طرح ممکن ہو حاصل کر کے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ جمہوری طرز حکومت کے مفکرین نے اسکی خوبیوں کے ساتھ ہی اسکی خامیوں اور کمزوریوں کی جو نشاندیہی کی تھی، ہمارا ملک ان دنوں ان تمام حالات سے دو چار ہے۔ عظیم فلسفی ارسطو اور دیگر مفکرین نے بھی جمہوری طرز حکومت کی کامیابی کے جو شرائط بیان کئے ہیں اس میں عوام کے حساس ،باخبر تعلیم یافتہ، فہم وفراست سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ اکثریت کا فرض شناس، حق شناس اور غیر جانبدار ہونا بھی لازم ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کی میزان یہ ہے کہ ہر شہری خود کو اقتدار اور وسائل کا وارث تسلیم کرے اور اسے محسوس کہ وہ بھی حکومت کا ایک رکن ہے ۔ملک کی ترقی وبہبود میں وہ بھی شامل ہے۔ اگر صرف اکثریت کے خیال و فکر کی فلاح ہی ارباب اقتدار کا منصوبہ ہو جائے اور وہاں اقلیت کے جذبات کی گنجائش باقی نہ رہے تو یہی صورت حال جمہوریت کی ناکامی کا پیش خیمہ ہے اوراسی صورت حال میں democracy پر mobocracy حاوی ہونے لگے گی ۔ اقلیت میں احساس بے چارگی جنم لیگا اور اکثریت سے مغلوب ہونے کا خطرہ لاحق ہوگا وہ اپنے وجود کی فکر میں مبتلا ہوگی ۔ وہ اب ترقیات اور فلاح سے زیادہ اپنی حفاظت اور اپنے مستقبل کی ضمانت کو ترجیح دینے لگے گی۔ اور اسی احساس غیر اعتمادی کے نتیجے میں وہ غلط راستے ،غلط حکمت عملی کاشکار ہوتی جائگی ۔
ہندوستان میں یہ صورتحال پہلے رونما ہوچکی ہے ۔ جہد آزادی کے دور میں گرچہ یہ صورتحال لاشعوری طور پر پیدا ہوی ۔ پنڈت جواہرلال نہرو نے اپنی کتاب "Discovery of India ” میں ہندوستان میں مذہبی علحدگی پسندی کے عروج کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوے اس بات کی نشاندیہی کی ہے ۔ گرچہ وہ سب لا شعوری طور پر انڈین نیشنل کانگرس کے غلط حکمت عملی کے سبب ہوا ۔ کانگریس نے جب ہندوستانی عوام میں قومی بیداری کی غرض سے ہندو مذہبی عناصر کو سیاست میں خلط کرنا شروع کیا ہندوستانی عوام کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے جہد آزادی میں شامل کراکر انگریزوں کے خلاف کھڑا کرنے کےلئے ہندوں کے تہوار اور مذہبی رسومات کو استعمال کرنا شروع کیا ، جیسے ،بال گنگا دھر تلک نے گنیش پوجا کے اتسو کو کانگریس کی تحریک سے جوڑا ،بنگال میں قومی تحریک کا آغاز کالی پوجا، گنگا آشنان اور بندے ماترم وغیرہ سے ہونے لگا ، تو مسلمانو ں میں احساس کمتری پیدا ہوا ، انکو اپنی مذہبی شناخت پر خطرہ نظر آنے لگا ،انیں اپنی تعداد کی کمی کا احساس ستنانے لگا ۔،اور پھر انکے رہنماؤں کو اپنے مذہب کی حفاظت کی فکر پیدا ہوی اور مسلم لیگ وجود میں آئ اور مسلم علحدگی پسندی نے زور پکرنا شروع کردیا ۔ رفتہ رفتہ قومی یکجہتی میں دڑاریں پڑنے لگیں ،اب مسلم لیگ ملک کی آزادی سے زیادہ مسلمانوں کے مستقبل اور انکے حقوق کے تئیں حساس ہوگئ ، بعد میں چل کر اسی مسلم اقلیت کو ہندو اکثریت کا خوف دلا کر محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ پیش کر دیا اور جذباتی مسلمانوں کو ورغلا کر انکی حمایت حاصل کر لی اور بالاخر ملک تقسیم ہو گیا ۔ لیکن دور اندیش ،ہو شمند مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کو ٹھکرا کر اسی ملک میں جینے مرنے اور یہیں دفن ہونے کا فیصلہ کیا۔
جواہر لعل نہرو نے باضابطہ ملک میں مسلم علحدگی پسندی پیدا ہونے کے لئے مسم اقلیت کے دلوں میں ہندو اکثرت سے مغلوب ہو جانے کے خوف کو ہی سبب قرار دیا ہے اور بقول” نہرو ” اس کیفیت کا پیدا ہونا فطری تھا ۔اور یہاں پر ملک کی ہندو اکثریت کی ذمہداری بنتی تھی کہ وہ اقلیت کے اس اضطرب کو سمجھتی اور انکو اعتماد دلانے کی کوشش کرتی ،کہ جب ملک آزاد ہوگا اور جمہوری نظام قائم ہوگا تو اس میں ملک کی اقلیت کے جذبات سرے کچلے نہیں جائنگے ۔لیکن بدقسمتی سے اس وقت کے کانگریسی رہنما وں نے اس پر توجہ نہیں دی اور یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں، بلکہ لاشعوری طور پر ہوا۔
۔
لیکن اب تو آزاد ہندوستان میں سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ایک ایجنڈا کے تحت کیا جارہا ہے ۔ یہاں ارباب اقتدار ،اقلیت کے جذبات کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ پامال کرنے کی ہر ممکن کوشس کر رہے اور انہیں فخر ہے کہ وہ ہندوستان کی صورت بدل کر بڑا کام کر رہے ہیں اور اسی بنیاد پر ہندو اکثریت کو ورغلا کر حمایت حاصل کرتے رہینگے۔ ارباب اقتدار جمہوری قدروں کو روندتے ہوے اپنے ایجنڈے پر کار بند ہیں ۔ لیکن شاید انہیں اس ملک کی تاریخ کا علم نہیں ، یا پرواہ نہیں ہے ،اس سر زمین پر ایک نظریہ،ایک فکر کبھی مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ملک فکری آزادی ، جمہوری قدروں کی پاسداری ،مختلف جذبات و خیالات اور مختلف تہذیب و تمدن کا پروردہ ملک رہا ہے یہاں جس نے بھی زور قوت کے سہارے اپنے نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی وہ ناکام رہاہے۔
ملک کی تاریخ، اسکی ہیت ،اور صورت بدلنے کی کوششوں اور جمہوریت کو لاحق خطرات کے خلاف ملک کی اقلیت اور مثبت سوچ کے عوام کےاکثریت کے دلوں میں بڑھتے اضطراب کو اقتدار کے جنون میں نظرانداز کرنا صریح غلطی اور بربادی کا پیش خیمہ ہوگا۔
ملک میں نفرت کی آگ سلگا دی گئ ہے۔ وقتا فوقتا نفرت کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں ، مسلمانوں کو غیر ملکی ،دیش دروہی اب تو مثبت سوچ کےہندوں کو بھی دیش دروہی قرار دینے کی مہم عروج پر ہے اور اس روش کو مزید شہ اس وقت ملتی ہے جب اس جمہوری ملک میں حکومت کے اقدام اور اعمال سے اسی طرح کے جذبے کا اظہار ہوتا ہے ۔ ہر سال یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کی تقریبات میں مسلمانوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حتی کہ وزیراعظم کسی مسلمان مجاہد آزادی یا مسلمان شہید وطن کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔
اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو بے جے پی اور وزیر اعظم بھی خود کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر ہندؤں کے جذبات کا استحصال کرنے کا کوی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ،وہی جذبہ یوم جمہوریہ کی پوری تقریب میں نظر آیا ،چلو ٹھیک ہے اجودھیا کو ہندو آستھا کا مرکز کے طور پیش کیا گیا تو اسے مان لیا جانا چاہیے۔ لیکن کیرل میں تو 27 % مسلم اور تقریبا 19فیصد عیسای ئ اور 1%غیر مقلد بھی ہیں ۔لیکن کیرل کی جھانکی کا تھیم بھی کسی ہندو دیوتا کے وجود پر ہی مبنی تھا ۔اس عمل سے آپ کی نیت کا کھوٹ صاف نظر آرہا تھا۔ اب تو اکثر و بیشتر سرکاری تقریبات میں بھی” جئے شری رام "کے نعرہ کی گونج سنای دینے لگتی ہے۔
اسی طرز عمل سے مسلمانوں میں بیزاری ،بے اعتمادی گھر کرتی جارہی ہے اور وہ غلط کاری کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے۔ کبھی جبر وظلم کے خلاف تشدد بھی اختیار کر لیتا ہے، کبھی اپنی عدم اعتماد ی کا اظہار یوم جمہوریہ کی تقریب میں ہی نعرہ تکبیر بلند کر کرنے لگتا ہے۔ یہ مستقبل کی سنگین صورتحال کی غماذی نہیں تو اور کیا ہے۔
شاہنواز خاں
سابق رکن بی پی ایس سی۔