سید سرفراز احمد
یہ کوئی حیرت ذدہ کرنے والی بات ہے نہ خوف کے سایہ میں رہنے والی بلکہ یہ وہ سیاست کا حصہ ہے جو سیاہ کرتوت پر پردے کا کام کرتا ہے سچائی کا جھوٹ سے دفاع کرتا ہے غافل کو بیدار ہونے سے روکتا ہے اور اسکا استعمال موقع مناسبت سے کیا جاتا ہے تاکہ صحیح وقت پر صحیح استعمال ہوسکے جی ہاں یہ وہی سیاسی ڈرامہ ہے جو یکساں سول کوڈ کے روپ میں انتخابی موسم میں عین وقت پر دستک دیتا ہے تاکہ ناکام حکمرانی کے خفیہ راز کے پردے فاش ہونے سے بچ سکیں اور عوام کے زہنوں کو منتشر کرسکے تب ہی اسکے نفاذ کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ اندبھکتی زہنیت والے اس بات کو دل دماغ سے سوچنے کے بجائے دل پر لیتے ہوئے سیاسی پینتروں کے جھانسہ میں آہی جاتے ہیں اور ہوتا یوں ہیکہ شاطرانہ سیاست بالآخر کامیاب ہوجاتی ہے جبکہ اندبھکتی کا صلہ سوائے خالی ہاتھ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
گجرات انتخابات کو لیکر عام آدمی پارٹی اور بی جے پی سیاسی چال بازیوں میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی ہر ممکنہ سعی کررہے ہیں جیسے کہ کیجریوال نے کہا کہ بھارتی کرنسی پر گاندھی جی کے ساتھ ساتھ گنیش اور لکشمی کی تصاویر چھاپی جائے ساتھ ہی بی جے پی نے گجرات میں یکساں سول کوڈ کو گجرات میں نافذ کرنے کی پہل کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے سوال یہ ہیکہ یکساں سول کوڈ کیا ہے؟اور بار بار اسکے نفاذ کی بات کیوں ہوتی ہے؟دراصل یہ قانون تمام مذاہب کے ماننے والوں پر یکساں طور پر نافذ ہوتا ہے جو انفرادی مذہبی عائلی قوانین کو مسترد کردیتا ہے جیسے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں ایسے قانون کا نفاذ غیر مناسب ہے کیونکہ اس قانون کی زد میں صرف مسلم پرسنل لا ہی نہیں آئے گا بلکہ ہندو لا,عیسائی لا,جین ,بدھ کے علاوہ دیگر مذاہب و طبقہ جاتی بھی اس زد میں آئیں گے مثلاً شادی ,وراثت,طلاق,گود لینا وغیرہ ان معاملات کو ہر مذہب اپنے مذہبی قوانین کے لحاظ سے عمل پیرا ہوتے ہیں جسمیں کسی کو کسی سے کوئی نقصان کے اندیشے ہیں نہ مذہبی قوانین میں چھیڑ چھاڑ کی گنجائش ہے اور یہی سچے سیکولرزم کی بہترین مثال ہے اگر ہم تاریخ ہند پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت آئین ہند کی تشکیل کی جارہی تھی اس وقت اس یکساں سول کوڈ کو لیکر کافی بحث ومباحثہ ہوا تھا اور بالآخر یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ ملک میں جب بھی اس قانون کے نفاذ کیلئے تمام مذاہب کا اتفاق ہوتا ہے تو اس قانون کو نافذ کیا جاسکتا ہے لیکن وہ اتفاق آج تک بھی قائم نہیں ہوسکا اور نہ آئندہ بھی قائم ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ ہمارا ملک کثیر ثقافتی ہے ایسے قانون کا اطلاق نا مناسب ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے اگر مذہب اسلام میں دیکھا جائے تو شادی ایک معاہدہ ہے وہیں ہندو فرقہ میں شادی ایک سنسکار ہے دیگر مذاہب میں بھی شادی و دیگر رسم و رواج کے طریقے الگ الگ ہیں بلکہ بعض مذاہب ایسے بھی ہیں جنمیں ایک ہی مذہب میں میں رسم و رواج کےطور طریقے بھی بین ریاستوں میں وہاں کی ثقافت پر مبنی ہے ایسے میں تمام مذاہب کا اس قانون پر اتفاق ہونا غیر یقینی ہے پھر کیوں بی جے پی بار بار اس قانون کو نافذ کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے؟ بی جے پی اگر اس قانون کو نافذ کرنے کی راہ نکالنا چاہتی ہے تو کیوں وہ تمام مذاہب سے اتفاق آرائ کے زریعہ اس قانون کو لاگو کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی؟یہ وہ سوالات ہے جسکا جواب بی جے پی کے پاس بھی نفی میں ہی موجود ہے لیکن دلچسپ سوال یہ ہیکہ پھر کیوں وہ یکساں سول کوڈ کی بات بار بار کرتی ہے؟
دراصل بی جے پی اس قانون کا تذکرہ بار بار اسلیئے کرتی ہیکہ وہ اس کے زریعہ ووٹ بینک حاصل کرنا چاہتی ہے اکثریتی طبقہ کی عوام کو اس قانون کے متعلق ہر سمت سے کھل کر سمجھانے سے گریز کرتی ہے جس سے سماج کے اکثریتی طبقہ کی عوام کو صرف یہ پیغام جاتا ہے کہ اس قانون سے صرف مسلمانوں کو شکوہ ہے لیکن حقیقت سے نا آشنا طبقہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ یہ قانون تمام طبقات کی مذہبی آزادی سلب کرلیتا ہے جہاں تک مذہب اسلام کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ آئین کے مطابق حاصل کردہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرتا ہے یہی بات دیگر مذاہب کے لوگ دوٹوک نہیں کہتے بات جب اتفاق آراءپر آکر رکتی ہے تو پھر کیوں بی جے پی ملک کی دوسری بڑی کثیر آبادی والے طبقہ کے عدم اتفاق پر بھی اس قانون کو کیوں لانا چاہتی ہے؟ظاہر ہیکہ ملک کی اتنی بڑی تعداد کے مطالبہ کو چھوڑ کر اگر قانون بنابھی دیا جائے تو کیا اسکو عملی جامع پہنانا مشکل ترین کام نہیں ہے؟ کثیر مذاہب والے ملک میں کسی بھی مذہب کو ٹھیس پہنچے بغیر کوئی بھی قانون بنانا انتہائی مشکل امر ہے لہذا ہر زاویہ سے یہ قانون ملک کیلئے اور تمام مذاہب کیلئے نقصاندہ ہے۔
بی جے پی اور ملک کی اکثریت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے متنازعہ قانون سے ملک کی سالمیت اور ثقافت کو شدید نقصان پہنچے گا بلکہ ووٹ بینک کی سیاست کیلئے اسطرح کے قانون کا سہارا لینا بھی ایک غیر زمہ دار حرکت ہے اگر واقعی بی جے پی چاہتی ہے کہ اس ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہو تو بی جے پی کو چاہیئے کہ وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں سے مذاکرات کا آغاز کریں اگر بات چیت کے زریعہ تمام مذاہب مثبت اتفاق پر پہنچتے ہیں تو قانون بننے کی راہ نکلے گی اگر عدم اتفاق ہوتو اس قانون کی گفت و شنید سے گریز کیا جائے یہی اسکا واحد حل ہے کیونکہ بات جب بار بار نکلتی ہے تو اسکو اختتام تک پہنچانا چاہیئے ورنہ عین انتخابات کے وقت ووٹ بینک کیلئے اس قانون کا استعمال کرنا اور پھر دانت میں انگلی دبا کر رفو چکر ہوجانا یہ سب کھلے اور چھپے طور پر سیاسی جال کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے بہتر ہے کہ اس مسلئہ کے حل کیلئے بی جے پی تمام مذاہب سے اتفاق آرائ حاصل کریں اگرتمام مذاہب اس قانون کو پسند کرتے ہیں تو نافذ کرنے میں کسی کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی اگر ناپسند کیا جائے تو ایسے مسلئہ یا قانون کے نفاذ سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ورنہ قانون کے نام پر ایسے ہی سیاست چلتی رہے گی تو ایک لڑی میں پرو ہوئے خوبصورت موتی آہستہ آہستہ بکھرتے جائیں گے کیونکہ جو محبت اور رواداری اپنے اپنے مذاہب کی آزادی میں ہے وہ یکساں میں نہیں ہے اور نہ یکساں میں آسکتی اسی خوبصورتی کو بنانے میں ہمارے پرکھوں نے بے شمار قربانیاں دی تب جاکر یہ گلستاں بنا یہی اس ملک کا فخر ہے اسکو تار تار ہونے سے بچانا ہر شہری کی خصوصی زمہ داری ہے لہذا بی جے پی کو چاہیئے کہ وہ بار بار یکساں سول کوڈ کے جن کو بوتل سے نکالنے بجائے اسکو بوتل میں ہی رہنے دیں یہی ملک اور قوم کے مفاد میں بہتر ہے۔