(سید مجاہد حسین)
جب کسی ریاست اور ملک کی تعمیر ہوتی ہے تو لوگوں کو بد امنی سے بچانے اور محفوظ نظام زندگی ومہذب سماج کیلئے ضوابط مرتب کئے جاتے ہیں اوراسی کے مطابق مجرمانہ ذہن کے افراد کو سزائیں مرتب کی جاتی ہیں ،آزاد بھارت کا جب قانون مرتب ہوا تو اس میں بھی جہاں شہریوں کے تما طرح کے حقوق اور آزادی کیلئے قوانین مرتب کرنے کا خیال رکھا گیا تو اسی کے ساتھ سماج کے سبھی لوگوں کو جرائم پیشہ سے بچانے اور ان کے مال و متاع اور عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے قانون بنایا گیا اور مجرموں کو سزائیں دینے کیلئے سنگین دفعات کے تحت قوانین بنائے گئے ۔اس کا مقصد ملک کو ایک مہذب معاشرہ اور نظام مہیا کرانا اور لوگوں کو محفوظ بناہ گاہ مہیا کرا نا تھا ۔لیکن پچھلے کچھ دنوں سے دیکھا جارہا ہے کہ سنگین دفعات میں جیلوں میں بند خونخوار مجرم انہی قوانین لچیلے پن کاسہارا لیتے ہوئے جیل سے آزاد ی حاصل کررہے ہیں اور بری بھی ہو رہے ہیں۔ کہیں حکومتیں ان کوخود معافی نامہ دیکر با عزت طریقہ سے آزاد ی کا پروانہ دے رہی ہیں تو کہیں ان کو بری کردیا جارہا ہے ۔جس سے سما ج میں منفی پیغام جارہا ہے ۔عدالتوں کے تئیں لوگوں کا اعتماد کمزور ہو رہا ہے اور سماج دشمن عناصر سینہ پھلائے سماج کو منہ چڑھا رہے ہیں اور انہیں حوصلہ مل رہا ہے۔ان میں سنگین سے سنگین جرم انجام دینے والے کچھ ایسے بھی شامل ہیں جن کو عدالت سزائیں سنا چکی ہیں لیکن وہ اونچی عدالت سے اپنی برائت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں،ایکن پہلے دہلی کے چھائولہ علاقہ کی جنسی زیادتی واقعہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اب لوگوں میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔یعنی کہ جن مجرموں نے ایک لڑکی کو بری طرح سے زخمی کر کے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی،اسے زدو کوب کیا اور ا سکے بعد اس کا قتل کردیاتھا ،اس کے ساتھ وہ سب کیا گیا جس کو بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اس سنگین جرم کی پاداش میں انہیں ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی ۔اس سے متاثرین کو امید بندھی تھی کہ مجرموں کو اب جلد کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے گا اور یہ فیصلہ دوسروں کے لئے نشان عبرت ثابت ہوگا ،لیکن اس وقت متاثرین کی امید وں کو بڑا جھٹکا لگا جب نو سال پرانہ بدنام زمانہ کیس سپریم کورٹ پہنچا ،جہاں مجرموں کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا گیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔عدالت کے اس فیصلے کے بعد سب سے بڑا جھٹکا جہاں متاثرین کو لگا ہے توو ہیں اس سے وہ لوگ بھی سخت حیران ہیں جو قانون پر مکمل بھروسہ جتاتے ہیں ۔اس بارے میں بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا شاید کسی کے پاس جواب نہیں مل سکے۔اس فیصلے کے بعد سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اگر بری ہوئے مجرم بے قصور ہیں تو پھر قصور وار کون ہیں اور وہ لوگ اس وقت کہاں ہیں ،دوسری بات یہ کہ ان تینوں مجرموں کے خلاف ہائی کورٹ نے موت کی جو سزا سنائی تھی وہ کس بنیاد پر سنائی گئی تھی ۔تیسرا سوال یہ ہے کہ جن مجرموں کو سپریم کورٹ سزا میں تبدیلی کیلئے لے جایا گیا تھا ،ان کو برائت کیسے ملک گئی اور کس بنیاد پر ملی ؟اس کے علاوہ بہت سے ایسے سوال ہیں جو لوگوں کے ذہنوں کو بے چین کئے ہوئے ہیں۔ وہیںمقتولہ کے والدین اس فیصلے سے خود کو ٹھگا سا محسوس کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ جنگ ہار گئے ہیں اور عدالت سے ان کا بھروسہ ٹوٹ گیا ہے ۔خواتین کے حقوق کی تنظیمیں بھی اس فیصلے سے بہت زیادہ حیران ہیں۔بہر کیف ،ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں مجرموں کے ان تمام افعال اور دھمکیوں اور تمام ثبوتوں کو ناکافی بتاتے ہوئے نظر انداز کردیا گیا ہے جو ان کو پیشہ ور مجرم ہونے کی طرف اشارہ کررہے تھے ۔ہائی کورٹ نے مانا تھا کہ ان تینوں مجرموں نے لڑکی کا بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا اور اس کے ساتھ بربریت دکھائی یہاں تک کہ اس کی لاش مسخ شدہ ملی ۔لیکن سپریم کورٹ میں ایسا کیا ہوا کہ تینوں کو بے قصور بتا کر انہیں بری کردیا۔غلط نہیں کہ متاثرین کیلئے اس طرح کے فیصلے حیران اورمایوسی کی کھائی میں دھکیلنے والے ہوتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب وہ تینوں بے قصور ہیں تو نو سال قبل کس نے اس انیس سالہ لڑکی کو اغوا کر کے بے رحمی سے قتل کیا،کس نے ا س کی آبرو پر حملہ بولاتھا اور سماج کو دہشت زدہ کیا تھا ؟،نو سال تک چلے اس کیس انصاف پانے کے لئے پیروی کرنے والوں کی بھاری بھرکم رقم خرچ ہوئی ،عدالت کا قیمتی وقت صرف ہوا ، سوچئے اس کی بھرپائی کیسے ہوگی؟ ۔اس کا سب سے زیادہ اثر متاثرہ کے والدین اور اس کیس کی پیروی کرنے والوں کے دل و دماغ پر ہوا ہے، جو اب اندر سے ٹوٹ چکے ہیں ۔عام رائے ہے کہ اس فیصلے سے جرائم پیشہ کو شاید مزید حوصلہ ملے گا اور سماج میں خواتین کی عزت و آبرو اور جان و مال کو تحفظ دیا جانا مشکل ہوگا۔