ڈاکٹر محمد یوسف حافظ ابوطلحہ
ہر با شعور انسان کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ جس سماج میں بستا ہے وہ سماج ایک آئیڈیل سماج ہو۔ مگر کوئی بھی سماج آئیڈیل صرف آرز¶وں اور تمنا¶ں سے نہیں بن جاتا، بلکہ اس کی کچھ بنیادیں ہیں، جن بنیادوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، تب جا کر کوئی سماج آئیڈیل بنتا ہے۔
آپ ذرا غور کیجئے کہ موجودہ زمانے میں مسلم معاشرہ کس قدر تیزی سے برائیوں کی طرف بڑھتا جا رہا ہے، اور اس پر برائیوں کی یلغار نہایت آسانی سے کامیاب ہو رہی ہے، ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ ہمارا اندرون کمزور ہوتا جارہا ہے اور باہر سے برائیوں کے مسلسل اور منظم حملے ہو رہے ہیں، نیز ہمارے سماج میں وہ دفاعی سسٹم نہیں پایا جاتا ہے جو برائیوں کو روک سکے اور ان پر پر کنٹرول کرسکے، وہ سسٹم ہے: بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا۔
یہ ہر زمانے میں اہل ایمان کا مشن رہا ہے۔ یہ تمام انبیائے کرام کا مشن ہے، یہ اس بہترین امت کا بہترین مشن ہے: ارشاد ربانی ہے: ترجمہ: ‘تم ایک بہترین امت ہو تم کو لوگوں کیلئے برپا کیا گیا ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔’
اس مشن کے بہت سارے فائدے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں نیکیوں کا بول بالا ہوگا، نیک لوگ سر اٹھا کر چلیں گے۔ اور برائیاں دبی ہونگی، برے لوگ سر جھکا کر چلیں گے۔
یہ ہمارے سماج کیلئے امیونٹی سسٹم (قوت مناعت) کے مانند ہے، جس طرح ایک انسان کا امیونٹی سسٹم جتنا مضبوط ہوتا ہے بیماریوں کا حملہ اس پر اسی قدر کم اثر انداز ہوتا ہے اور امیونٹی سسٹم جتنا کمزور ہوتا ہے، بیماریوں کا حملہ اسی قدر اس پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح یہ مشن ہمارے سماج کیلئے امیونٹی سسٹم کے مانند ہے، یہ جتنا مضبوط ہوگا ہمارا سماج برائیوں سے اسی قدر محفوظ ہوگا، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہترین مثال سے اس چیز کو واضح کیا ہے۔ صحیح بخاری میں نعمان بن نشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(برائیوں میں مبتلا ہونے والے کی مثال اس قوم کی طرح ہے کہ جنہوں نے ایک کشتی کرائے پر لیا، پھر آپس میں قرعہ اندازی کیا، کچھ لوگ کشتی کے بالائی حصے پر بیٹھے اور کچھ لوگ کشتی کے نیچے والی منزل پر بیٹھے۔ نچلی منزل والے لوگ جب بالائی منزل پر پانی کیلئے جاتے تھے تو بالائی منزل پر پانی کے چھینٹے وغیرہ پڑ جاتے تھے۔ انکی رائے یہ بنی کہ ہم بالائی منزل کے لوگوں کو تکلیف کیوں پہنچائیں گے؟ ہم اپنے حصے میں سوراخ کر لیتے ہیں، یہیں سے ہم پانی نکال لیں گے۔ اگر اوپر والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جانے دو وہ سوراخ تو اپنے حصے میں کر رہے ہیں ہم کو اس سے کیا مطلب ہے؟ تو نچلی منزل والے بھی ڈوبیں گے اور بالائی منزل والے بھی ڈوبیں گے۔ لیکن اگر بالائی منزل کے لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا کہ تم اس کشتی میں سوراخ نہیں کر سکتے ہو۔ تو بالائی منزل والے بھی محفوظ رہیں گے۔ اور نچلی منزل والے بھی محفوظ رہیں گے۔)
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے معاشرے میں برائی کرنے والوں کا ہاتھ پکڑ لیا تو برائی کرنے والا بھی محفوظ رہے گا۔ اور معاشرے کے دوسرے لوگ بھی محفوظ رہیں گے۔ اور اگر ہم نے برائی کرنے والوں کا ہاتھ نہیں پکڑا، تو وہ بھی ہلاک ہوگا اور ہمارا پورا معاشرہ بھی ہلاک ہوگا اور نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ اللہ تعالی ہماری دعا¶ں کو بھی قبول نہیں کرے گا، جیسا کہ مسند احمد اور سنن ابی دا¶د میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
یہ مشن منجملہ فرض کفایہ ہے۔ یعنی جو لوگ اس مشن کو انجام دینے کی قدرت رکھتے ہیں اگر ان میں سے کچھ لوگ اس مشن کو انجام دیتے ہیں، تو بقیہ لوگوں سے گناہ ساقط ہوجائے گا، اور اگر کوئی بھی اس مشن کو انجام نہیں دیتا ہے تو سب کے سب لوگ گنہگار ہوں گے۔ لیکن بسا اوقات یہ فرض عین ہو جاتا ہے یعنی کسی ایک شخص پر یہ فرض ہو جاتا ہے جب وہ برائی ایسی ہو جس برائی کے بارے میں دوسرے کو علم نہ ہو یا اس برائی کو اس شخص کے علاوہ دوسرا روک نہیں سکتا ہو تو ایسے شخص پر وہ فرض عین ہے، اور جس کے اندر برائی کو روکنے کی جتنی طاقت ہے، جتنا پاور اور جتنا اختیار ہے۔ اس پر یہ چیز اتنی ہی زیادہ واجب ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مشن کو انجام دینے والے جو لوگ ہوں گے، ان میں کون کون سی صفات پائی جانی چاہیے؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بنیادی طور پر تین صفات پائی جانی چاہیے۔ علم، رفق (نرمی)، اور صبر۔
۱- علم: ظاہر سی بات ہے کہ آپ جب بھلائی کا حکم دینا چاہتے ہیں، تو آپ کو علم ہونا چاہیے کہ یہ چیز بھلائی ہے۔ آپ جب کسی برائی سے روکنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ یہ چیز برائی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ علم کتنا ہونا چاہیے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک آدمی مدرسے سے عالمیت اور فضیلت کی ڈگری حاصل کرنے والا باصلاحیت عالم ہو؟ علامہ نووی رحمة اللہ علیہ صحیح مسلم کی شرح میں اس کی وضاحت کی ہے کہ کہ دین کے جو موٹے موٹے معروف مسائل ہیں، جو مشہور واجبات ہیں جیسے نماز پڑھنا واجب ہے، روزہ رکھنا واجب ہے، اسی طریقے سے دین کے جو مشہور محرمات ہیں زنا کرنا حرام ہے، چوری حرام ہے، شراب نوشی حرام ہے، تو یہ جو موٹے موٹے مسائل ہیں ان کا علم تمام مسلمان کے پاس ہے۔ البتہ دین کے جو باریک مسائل ہیں ان کا تعلق علماءسے ہے، ان میں علماءفیصلہ کریں گے۔گویا کہ ہمارے سماج میں جو یہ تصور پیدا ہو گیا ہے کہ بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مدارس کے فارغین ہیں، یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ اور اسی وجہ سے ہم اس مشن کو انجام دینے سے پیچھے ہٹتے ہیں، یہ تصور بالکل غلط ہے۔ کیونکہ موٹے موٹے مسائل کا ہر مسلمان جانکار ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں عام طور سے ایسی ہی برائیاں پائی جاتی ہیں جس کو معاشرے کا ہر با شعور انسان جانتا ہے کہ یہ برائی ہے۔لہٰذا اس معاشرے کے جو پاورفل لوگ ہوں گے، جو با اختیار لوگ ہوں گے انکی ذمہ داری یہ ہے کہ اس برائی کی روک تھام کی کوشش کریں۔
۲- رفق (نرمی): بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں نرمی کے ساتھ معاملہ کریں، اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو اور انکے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو جب فرعون کے پاس بھیجا تو اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا: ‘جائیے آپ لوگ فرعون کے پاس، اس نے سرکشی کر رکھا ہے۔ اور اس سے نرم گفتگو کیجئے، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا اللہ سے ڈر جائے۔
دینوری نے اپنی کتاب المجالسة وجواہر العلم میں نقل کیا ہے: کہ ہارون رشید خانہ¿ کعبہ کا طواف کر رہے تھے ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں، اور نہایت سخت گفتگو ہوگی، آپ اللہ کے واسطے تھوڑا سا برداشت کر لیجئے گا۔ کہا: نہیں۔ اللہ نے تم سے بہتر شخص کو مجھ سے بدتر شخص کے پاس بھیجا۔ اللہ نے حضرت موسی کو فرعون کے پاس بھیجا اور کہا نرم گفتگو کرنا۔ تم کیوں سخت گفتگو کرو گے؟
تو اصل چیز یہ ہے کہ ہم نرمی کے ساتھ گفتگو کریں۔
۳- صبر: جب آپ اس مشن کو انجام دیں گے تو آپ کو بہت ساری مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا ہوگا، انبیائے کرام علیہم الصلاة والتسلیم کو جنہیں اللہ تعالی نے رسول اور نبی بنا کر بھیجا تھا، ان کو بھی بہت ساری تکلیفوں اور مصیبتوں کا سامنا ہوا مگر انہوں نے صبر کیا.
لہٰذا اس راہ میں صبر کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالی نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا اور سورة المدثر نازل فرمائی تو انہیں حکم دیا کہ اپنی رب کی رضا کی خاطر صبر کیجئے۔
اور حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ بیٹا! بھلائی کا حکم دینا برائی سے روکنا، اور جو مصیبتیں لاحق ہوں گی اس پر صبر کرنا، یہ بہت زندہ دلی کی بات ہے۔
قارئین کرام! ضرورت ہے کہ ہم اس مشن کو اچھی طرح سمجھیں، اور اپنے سماج میں اس سسٹم کو نافذ کرنے کی کوشش کریں، تاکہ ہمارا سماج برائیوں کے یلغار سے محفوظ رہے یا کم متاثر ہو۔ آمین۔