نئی دہلی :26دسمبر /سماج نیوز سروس۔یودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر اگلے ماہ ایک وسیع رام مندر کا افتتاح ہونے جا رہا ہے۔ جبکہ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور وارانسی کی گیانواپی مسجد پر ہندو فریقین دعویٰ کر رہے ہیں اور ان سے متعلق مقدمات کئی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش کے دھار میں واقعہ مسجد کمال مولا کا معاملہ بھی عدالت میں زیر غور ہے۔ دریں اثنا ہندو تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح کے 40 معاملات کو عدالت میں لے جایا جائے گا۔وشو ویدک سناتن سنگھ نامی تنظیم کے سربراہ جتیندر سنگھ وسین نے دعویٰ کیا ہے کہ 2024 میں بسنت پنچمی کے موقع پر 40 مذہبی مقامات کو’آزاد‘ کرانے کی مہم کی شروعات کی جائے گی۔جتیندر سنگھ نے کہا ہے ’’ایودھیا میں شری رام جنم بھومی کے معاملے پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ متھرا میں شری کرشنا جنم بھومی کیس میں کام جاری ہے۔ کاشی میں گیانواپی پیچیدہ تنازعہ پر بھی کام جاری ہے۔ مدھیہ پردیش کے دھار میں بھوج شالا کے معاملے پر بھی کام جاری ہے۔‘‘جتیندر سنگھ نے مزید کہا، ’’اب 40 دیگر مذہبی مقامات کی آزادی کے لیے بیک وقت عدالتی/آئینی مذہبی جنگ کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ 2024 میں بسنت پنچمی کو آئینی مذہبی جنگ شروع کرنے کا بگل بجایا جائے گا۔‘‘متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد-شری کرشن جنم بھومی تنازعہ 13.37 ایکڑ اراضی پر ملکیتی حقوق سے متعلق ہے۔ 12 اکتوبر 1968 کو شری کرشنا جنم استھان سیوا سنستھان نے شاہی عیدگاہ مسجد ٹرسٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں 13.7 ایکڑ اراضی پر مندر اور مسجد دونوں بنانے کی بات کی گئی تھی۔ شری کرشنا جنم استھان کے پاس 10.9 ایکڑ اراضی کے مالکانہ حقوق ہیں اور شاہی عیدگاہ مسجد کے پاس 2.5 ایکڑ اراضی کے مالکانہ حقوق ہیں۔ہندو فریق کا کہنا ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد ناجائز تجاوزات سے بنائی گئی ہے اور اس زمین پر ان کا دعویٰ ہے۔ ہندوؤں کی جانب سے شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے اور اس زمین کو شری کرشنا جنم استھان کو سونپنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔