ہندوستان، جو کبھی اپنی قدیم تہذیب، روایات، خاندانی اقدار اور روحانی ورثے پر ناز کرتا تھا، آج ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے جو نہ صرف فکری بلکہ اخلاقی بحران کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے۔ میڈیا رپورٹس اور سوشل میڈیا پر آئے دن ایسے دل دہلا دینے والے واقعات منظرِ عام پر آ رہے ہیں جنہیں دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ ساس داماد سے شادی کر رہی ہے، مامی اپنے بھانجے کے ساتھ گھر بسا رہی ہے، بھائی بہن کی حرمت پامال ہو رہی ہے، اور باپ بیٹی کے رشتے جیسے مقدس بندھن کو نکاح کے نام پر شرمندہ کیا جا رہا ہے۔حد تو یہ ہو گئی ہے کہ بات لڑکی لڑکے کی شادی کی ہو رہی ہے لیکن جب لڑکے والے لڑکی دیکھنے اس کے گھر جاتے ہیں تو ہونے والے داماد کو لڑکی کی ماں پسند آ جاتی ہیں ، فون نمبر کا لیں دین ہوتا ہے اور پھر تین چار دنوں کے اندر ہی اماں اپنا بسا بسایا گھر بار چھوڑ کر ہونے والے داماد کے ساتھ فرار ہو جاتی ہیں ۔مندر میں شادی ہوتی ہے اور ہونے والے داماد کا پیغام ہونے والے سسر کے پاس آتا ہے کہ جتنے سال اپنی پتنی کے ساتھ گذار لیا اس پر صبر کر لیں اب آپ کی پتنی میری بیوی ہے ۔
اخلاقی اقدار کی یہ پامالی آج سے تیس برس پہلے قصہ کہانیوں میں بھی نہیں۔ سنا جاتا تھا ۔لیکن آج وہ سب کے سامنے ہے ۔
یہ تمام واقعات محض انفرادی فطرت کے فساد کی علامت نہیں، بلکہ پورے معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ اور ذہنی پسماندگی کا غماز ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک طرف معاشرہ اس قدر بکھر چکا ہے، اور دوسری جانب سیاسی ایوانوں میں بیٹھے کچھ عناصر اس تباہی کی اصل وجہ تلاش کرنے کے بجائے ایک مخصوص اقلیت — یعنی مسلمانوں — کو نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔ بیانات دیے جاتے ہیں کہ بھارت کی تہذیب کو مستقبل میں خطرہ ہے، اور وہ خطرہ مسلمانوں سے ہے! یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس تہذیب کو واقعی خطرہ ہے، وہ اپنے ہی ہاتھوں، اپنی ہی بے راہ روی، فحاشی، لامذہبیت اور مادرپدر آزادی کی وجہ سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔اخلاقی قدروں کی اس پستی کے شانہ بشانہ لو جہاد اور سیندور جہاد جیسی اصطلاحیں بھی گڑھی جا چکی ہیں اور معاشرے کو نفرت کا بازار بنا دیا گیا ہے ۔لیکن اس طرح معاشرے کی روح کو زخمی کئے جانے پر نہ تو کسی تنظیم کی آواز آتی ہے اور نہ کسی مذہبی لیڈر کی کہ آخر ہمارا۔سماج کہاں جا کر سانس لیگا۔
ایسے حالات میں جب خاندانی ڈھانچہ کمزور ہو رہا ہے، جب تعلیم کردار سازی سے خالی ہو چکی ہے، جب میڈیا صرف سنسنی اور فحاشی کو فروغ دے رہا ہے، اور جب مذہب کو صرف سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تو سوال اٹھتا ہے کہ اصل دشمن کون ہے؟ وہ مسلمان جو صدیوں سے ہندوستان کی تہذیب کا حصہ رہے، یا وہ نظام جو آج انسانیت اور رشتوں کو بے معنی بنا چکا ہے؟لیکن یہ سوال کسی سے کیا جائے ۔جواب دینے والا کوئی نہیں ہے ۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ آج کل کے مقابلہ میں زیادہ سہولت ہے کہ ان غلط روی کے خلاف آواز بلند کی جائے اور لوگوں کو بیدار کیا جائے ۔میڈیا اور اس کے لئے موجود ڈیجیٹل آلات ساری دنیا کو ایک گاؤں تو بنا چکی ہے لیکن اس کے پاس ان معاشرتی بیماریوں کے سد باب کے لئے نہ تو کوئی پروگرام ہے اور نہ انہیں لگتا ہے کہ اس سے ان کو ٹی آر پی ملیگا ۔اور جب پوری دنیا میں یہ چلن عام ہو چکا ہو کہ پیسہ کے حصول کی راہ میں آنے والے اقدار اور روایت کو ٹھوکر مار دینا ہی ترقی کی منزل تک پہنچا سکتی ہے تو پھر کسی چینل کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے کسی سلاٹ کو معاشرتی مسائل کے لئے مختص کرے ۔کم سے کم موجودہ وقت میں تو یہ ناممکن ہے ۔حالانکہ وقت آ چکا ہے کہ ہم اصل مسائل کی طرف توجہ دیں۔ اخلاقیات کی بحالی، تعلیم میں تہذیبی تربیت، میڈیا پر جوابدہی اور سیاسی قیادت کی سچائی — یہ سب وہ پہلو ہیں جن پر توجہ دیے بغیر ہم کسی بھی تہذیب کو بچا نہیں سکتے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب بھارت کی عظمت محض تاریخ کی کتابوں میں دفن ہو کر رہ جائے گی اور باقی رہ جائے گا صرف تماشہ — انسانیت کے بکھرنے کا۔