رضوان سلمانی
دیوبند، یکم؍ جون،سماج نیوز سروس:دارالعلوم دیوبند کے 157 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر مدرسہ اسلامیہ عربیہ فیض الاسلام قصبہ لاوڑ ضلع میرٹھ کے ذمہ داران و اساتذہ نے اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ مدرسہ ھٰذا کے مہتمم حافظ محمد ابراہیم نے کہاکہ دارالعلوم دیوبند کا قیام مسلم تاریخ ہند کے آخری دور کا ایک اہم واقعہ ہے وہ ایک سرچشمہ ہے جس سے علوم و فنون اسلامی کی تدریس و اشاعت، دعوت و ارشاد، اصلاح معاشرت، تطہیر بدعات و رسومات، تصنیف و تالیف، تاریخ و تعلیم، ثقافت و صحافت، اور آزادی وطن کی بے شمار تحریکیں پیدا ہوئیں جنہوں نے قومی و ملی زندگی اور فکر و عمل کے بہت سے گوشوں کو متاثر کیا۔ دارالعلوم دیوبند کا قیام ایک دور کا خاتمہ تھا اور ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان بھی تھا وہ جنگ آزادی کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا ،وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم عنوان ہے اور ہندوستان کی تاریخ عمومی یا تاریخ سیاسیات کا ایک قابلِ فخر موضوع ہے۔
مدرسہ ھٰذا کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد اسجد یونس قاسمی نے کہاکہ بر اعظم پاک و ہند کی تاریخ کا آخری دور 1857کے بعد شروع ہوتا ہے اس دور میں بڑے بڑے کام انجام پائی۔ بڑی بڑی تحریکیں چلیں اور عظیم شخصیات کے وجود سے اس دور نے عزت پائی۔ 1957کے انقلاب کے اثرات اور اس کے ردعمل سے قومی و ملی زندگی کا کوئی گوشہ محفوظ نہ تھا سیاسی انقلاب نے قومی و ملی بیداری کی جو لہر پیدا کر دی تھی اس سے تعلیم کا گوشہ بھی بچا ہوا نہ تھا۔ مدرسہ اسلامیہ دیوبند کا قیام ملی بیداری کی اسی تحریک کا نتیجہ تھا دیوبند کا یہ مدرسہ جو آگے چل کر دارالعلوم دیوبند کے نام سے مشہور ہوا مسلمانوں میں احیائے اسلام کی دینی اور سیاسی تحریک کا انقلابی مرکز بنا اور نامور مجاہدین آزادی وطن، علماء کرام، محدثین عظام، ماہر فقہ، مفسر قرآن، شعراء، ادباء، صاحب دعوت و ارشاد بزرگ، مؤرخ، صحافی، سیاسی شخصیات پیدا کیں جن کے فیض سے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا جہان کے ہر کونے کونے میں رہنے والے لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں۔
مدرسہ ھٰذا کے استاذ حافظ محمد سجاد اشرف نے دارالعلوم کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی تحریک حکیم الہند شاہ ولی اللہ کی تحریک کا نیا دور تھا لیکن یہ خود بھی ایک جامع جہات اور مختلف الاطراف تحریک تھی ،یہ مدرسہ کہنے کو تو علومِ اسلامیہ کی ایک درسگاہ تھی لیکن اس کے فیضان سے ہندوستان کی علمی و عملی اور دینی و دنیاوی زندگی کا کوئی گوشہ محروم نہ رہا ،درس و تدریس، تعلیم و تعلم، وعظ و تبلیغ، دعوت و ارشاد، سلوک و تصوف تو گویا اس شجر کے برگ و بار تھے، سیاست، صحافت، تاریخ، شعر و ادب، تصنیف و تالیف، خدمت خلق، تحریک آزادی وطن سے لیکر اسلامی ممالک کے حفظ و دفاع اور ان کی آزادی کی جنگ اور افریقہ و ایشیا کی دوسری محکوم اقوام اور ممالک کی آزادی کی راہ میں اور استعمار کے پنجۂ استبداد سے ان کی رہائی کی جدو جہد میں اس کے فرزندوں نے ایثار وقربانی کی مثالیں قائم کر دیں۔ ملک کی زندگی کو جتنا دارالعلوم دیوبند کی تحریک نے متأثر کیا ہے وقت کی کسی دوسری تحریک نے متأثر نہیں کیا۔ دارالعلوم دیوبند کی خدمات کو لکھے بغیر ہندوستان کی تاریخ نا مکمل ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے کارناموں کی تاریخ روز اول سے ہی آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔