انتخاب چاہے پارلیمانی ہو یا اسمبلی کا ملک کے وزیر اعظم اس کی ماحول سازی میں اتنے شدومد مد سے شامل ہوتے ہیں جیسے یہ ان کی اولین ذمہ داری ہو ۔ظاہر سی بات ہے چونکہ وہ یہ کرتے ہیں تو کہنا پڑتا ہے ۔آزادی کے اتنے سالوں بعد بھارت کے لوگوں کو ایک ایسا وزیر اعظم نصیب ہوا ہے جو بھلے ہی وعدہ فراموش ہو لیکن ان کے ہر وعدے کو "تحفہ "سمجھا جاتا ہے اور میڈیا میں اس کی خبر بنتی ہے ،خبر کیا سرخی بنتی ہے ۔
نریندر مودی کی حالیہ بہار کی ریلی نہ صرف انتخابی ماحول کا پیش خیمہ بنیں بلکہ ان کے بیانیے، لہجے، اور ترجیحات نے آئندہ بہار اسمبلی انتخاب کی سمت کا بھی اشارہ دے دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے ان دوروں سے سیاسی طور پر کیا حاصل کیا، اور کن محاذوں پر انہیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا؟
موتیہاری کی ریلی میں بی جے پی کے وفاداروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ نریندر مودی نے جذباتی نعروں، مذہبی حوالوں، اور قومی سلامتی کے مسائل کو چھیڑ کر اپنے کور ووٹ بینک کو یقین دلایا کہ ان کی قیادت ہی ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھ سکتی ہے۔
وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپوزیشن کو "بدعنوانی کا پجاری” قرار دیتے ہوئے اپنی حکومت کو شفافیت اور ترقی کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ خاص طور پر "نیا بھارت، نئے بہار” کا نعرہ نوجوان طبقے کو متوجہ کرنے کی ایک کوشش تھی۔
مودی نے کئی ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح یا اعلان کیا، جن میں سڑکوں، ریل لائنوں، اور اسکیموں کی لمبی فہرست شامل تھی۔ ان اعلانات سے گمان کیا جا رہا ہے کہ وہ بہار کےدیہی ووٹرز کو لبھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔کیونکہ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ایک دو دن سے فیس بک پر تواتر کے ساتھ کولکتہ سے چل کر دہلی آنے والی بلٹ ٹرین کا اشتہار وائرل ہو رہا ہے جو پٹنہ سے ہوکر گذریگی اور صرف تین گھنٹہ میں دہلی کا سفر طئے کر لیگی ۔عین ممکن ہے کہ گجرات سے ممبئی تک چلائی جانے والی بلٹ ٹرین کو بھی بنگال وایا بہار اور اتر پردیش تک چلا دیا جائے کیونکہ بہار کے بعد بنگال اور اتر پردیش میں بھی انتخاب ہے ۔ لیکن یہ بات بہار کے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عین اس وقت جب بہار میں اپوزیشن اسمبلی انتخاب میں بہار سے مہاجرت کو ایک بڑا مدعا بنا رہی ہے مودی جی بلٹ ترین سمیت باپو دھام یعنی موتیہاری سے چل کر دہلی کے آنند وہار تک جانے والی ایک اور ٹرین کا تحفہ کیوں دے رہے ہیں ۔مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کی ناراضگی، اور معاشی بدحالی جیسے سلگتے مسائل پر وزیر اعظم کی خاموشی نے عوام کے ایک بڑے طبقے کو مایوس بھی کیا۔لیکن یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اس مایوسی کا اثر نتیجہ پر کم ہی ظاہر ہوتا ہے ۔ ان ریلیوں میں زمینی حقائق سے کٹ کر صرف دعوے بازی نظر آئ ۔لیکن اسی دعوے بازی کی ایندھن سے بی جے پی کی گاڑی چل بھی رہی ہے ۔اور ملک کے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ نریندر مودی کو وشنو کا اوتار تک کہہ رہا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس وشنو اوتار کو ہر انتخاب ووٹ مینجمنٹ کے نئے طریقہ کو استعمال کرنا پڑتا ہے ۔
بہار میں یہ روایت بھی بہت پرانی ہے کہ وہاں بیلٹ باکس سے جن نکلتا تھا ۔لیکن اب اس ڈیجیٹل عہد میں ای وی ایم سے جن نکلتا ہے ۔اور اقتدار جس کے ہاتھ میں ہو جن اکثر اس کے حکم سے اور اسی کے حق میں نکلتا ہے ۔ویسے اس بار مودی جی کے لئے الیکشن کمیشن خوب پسینہ بہا رہا ہے ۔اور یہ امید کی جانی چاہئے کہ اس محنت کا خاطر خواہ نتیجہ انتخابی نتیجہ پر نظر بھی آئے گا ۔پتہ نہیں اس سچائی کو بہار کی حزب اختلاف کو سمجھنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے ۔اس تازہ انتخابی دورے میں بھی
مودی جی کی تقریریں زیادہ تر تنقیدی اور الزام تراشی پر مبنی تھیں، جنہوں نے اپوزیشن کو متحد ہو کر جواب دینے کا موقع دیا۔ ایک منقسم اپوزیشن کو یکجا کرنا بسا اوقات ایک سخت بیانیہ ہی کرتا ہے، اور یہی اس موقع پر بھی ہوا۔
موتیہاری کی ریلی سے وزیر اعظم مودی نے وقتی طور پر پارٹی کارکنان اور حامیوں کا حوصلہ ضرور بڑھایا، مگر وہ عوامی اعتماد کا وہ دائرہ قائم نہ کر سکے جو انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ ایک طرف ان کی تقریریں پرانی حکمت عملی کی تکرار لگیں، تو دوسری طرف بہار کے عوام آج حقیقی مسائل کے حل کی جستجو میں ہیں۔
آنے والے دنوں میں اگر بی جے پی نے صرف نعروں پر اکتفا کیا، اور اپوزیشن نے زمینی سوالات پر مضبوط مہم چلا دی، تو موتیہاری کی گونج جلد خاموش ہو سکتی ہے۔ بہار کے سیاسی منظر نامے میں بازی کس کے ہاتھ جائے گی، یہ اب عوامی شعور اور اپوزیشن کی حکمت عملی پر منحصر ہے۔