قومی کونسل زبان کے فروغ کے بجائے سرکار کے نعرے کی تشہیر میں مصروف
پٹنہ کے گردنی باغ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا سیمینار منعقد ہوا، عنوان تھا:
’’اردو زبان کا مستقبل وکست بھارت 2047 کے تناظر میں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اردو کے مستقبل پر گفتگو کے لیے سرکار کے انتخابی نعرے کو سہارا کیوں بنایا گیا؟ کیا اردو زبان صرف اسی وقت زندہ رہ سکتی ہے جب وہ ’’وکست بھارت‘‘ کے بینر تلے سر اٹھائے؟وزیر اعظم نریندر مودی کا فرمان ہے: ’’وکست بھارت 2047 ہمارا خواب ہے‘‘۔
مگر دوسری طرف وزیر داخلہ امیت شاہ اعلان کرتے ہیں: ’’ایک قوم، ایک زبان اور وہ زبان ہندی‘‘۔
جب اردو کے طلبہ اپنے حقوق مانگتے ہیں تو حکمراں جماعت کے ترجمان یاد دلاتے ہیں کہ: ’’اردو تو پاکستان کی زبان ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ جس زبان کو آپ بوجھ اور غیرفطری قرار دیتے ہیں، اسے ’’وکست بھارت‘‘ کے نعرے میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کبھی زبان کے تحفظ کا سب سے معتبر ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ ادارہ اردو کے مسائل حل کرنے کے بجائے سرکاری نعروں کی تشہیر میں مصروف ہے۔
موجودہ ڈائریکٹر، جو اصل میں نیشنل بک ٹرسٹ سے آئے ہیں، بظاہر اردو دنیا کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اردو کا مستقبل مودی جی کے خواب میں لپیٹ دینے سے سنور جائے گا۔جبکہ در پردہ وہ فروغ اردو بھون میں بیٹھ کر نیشنل بک ٹرسٹ کے مشن کو انجام تک پہنچا رہے ہیں ۔
سوچیے، غالب، فیض اور اقبال اگر زندہ ہوتے اور اس سیمینار میں شریک ہوتے تو کیا کہتے؟
غالب شاید مسکرا کر کہتے:
’’ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا؟‘‘
اور فیض اپنا کلام یوں پیش کرتے :
’’ہم پرورشِ زبان کو سمجھ بیٹھے تھے خواب،
یہ تو نکلا سرکار کا انتخابی خطاب‘‘۔
اردو کا مستقبل نہ کسی سیمینار میں چھپا ہے، نہ کسی سرکاری نعرے میں۔
اردو کو کبھی حکومتوں نے زندہ نہیں رکھا، اردو کو عوام نے زندہ رکھا ہے۔
وہ عوام جن کی محبت اور روزمرہ کی بول چال اردو کو آج بھی سانس دیتی ہے۔
کیا قومی کونسل اس سوال کا جواب دے گی کہ اردو کی بقا کے نام پر یہ ’’وکست بھارت‘‘ کی اشتہاربازی کب تک جاری رہے گی؟اور کیا واقعی اردو کا مستقبل اسی نعرے کے سائے میں تلاش کیا جا سکتا ہے؟
اردو زندہ ہے اور زندہ رہے گی — لیکن سرکاری پروپیگنڈے کے دم پر نہیں، اپنے ان شیدائیوں کے دم پر جو نام ونمود کی خواہش کے بغیر پرورش لوح قلم کر رہے ہیں اور کرتے رہینگے ۔