سنہری باغ مسجد کی حفاظت کے لیے ملت اسلامیہ سرگرم
انہدامی کاروائی پر روک لگانے کا وزیر اعظم سےپرزور مطالبہ
صدر جمعیۃ علماہند مولانا محمود اسعد مدنی نے پی ایم مودی کو خط لکھ کر کہا اس طرح کی کاروائی ملک کے مشترکہ ورثے کو شدید نقصان پہنچائے گی،جمعیۃ کے مرکزی وفد کا دورہ ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا مسجد کا انہدام برداشت نہیں کیا جائے گا ،
نئی دہلی : این ڈی ایم سی کی جانب سے قدیم سنہری باغ مسجد کو منہدم کیے جانے کا جاری نوٹس کے بعد ملت اسلامیہ ہند میں شدید بے چینی ہے چنانچہ اس کی حفاظت کے لیے نمائندہ تنظیمیں سرگرم ہو گئی ہیں۔ ملک کی قدیم ملی جماعت جمعیۃ علما ہند کے قومی صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے خبر موصول ہوتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ کو خط لکھ کر نئی دہلی کے راج پتھ پر واقع مسجد سنہری باغ کے ممکنہ انہدام پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ۔ انھوں نے اپنے مکتوب میں وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نئی دہلی میونسپل کونسل (NDMC) کی جانب سے مسجد سنہری باغ کے ہٹانے سے متعلق رائے عامہ کے حصول کے نوٹیفکیشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائی ہمارے مشترکہ ورثے کو شدید نقصان پہنچائے گی۔ یہ مسجد ملک کے مرکزی جگہ پر دوسو سالوں سے قائم ہے جو ہمارے ملک کے بھرپور ثقافتی اور تاریخی ورثے کی گواہ ہے۔ ہمارا ملک کثرت میں وحدت سے معنون ہے اور بقائے باہم کے اصولوں سے مالا مال ہے۔ اپنی عظمت اور شان کے ساتھ قائم یہ مسجد نہ صرف ار د گرد رہنے والوں کے لیے عبادت کی جگہ ہے بلکہ ان قابل فخر وراثت کی حامل بھی ہے ۔مزید برآں اکتوبر 2009 کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ مسجد گریڈ III کی ہیریٹیج عمارت میں شامل ہے۔ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ بذات خود اس معاملے کا نوٹس لیں اور مسجد سنہری باغ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس معاملے میں آپ کی مداخلت اس ملک کی ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے حکومت کے عزم کو تقویت پہنچائے گی۔اس کے ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کے ایک مرکزی وفد نے آج دوپہر ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں سنہری باغ مسجد پہنچ کرامام مولانا عبدالعزیز سے ملاقات کی اور مسجد سے متعلق پوری صورت حال سے آگاہی حاصل کی۔ امام صاحب نے بتایا کہ ہماری مسجد سرکار کی طرف سے سیکوریٹی کی ہر ہدایت پر عمل پیرا ہوتی ہے، یہاںتک کہ پارلیمنٹ اجلاس کے دوران یہاں جماعت سے نماز کا اہتمام نہیں ہوتا۔نیز اس مسجد کی وجہ سے ٹریفک کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس ہم اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ اس مسجد کی حفاظت فرمائے۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے وفدنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی نے دہلی کے لوگوں سے خاص طور پر اپیل کی کہ وہ این ڈی ایم سی کے نوٹیفکیشن کا جواب دیں کہ وہ اس مسجد کے انہدام کو ہر گز پسند نہیں کرتے ۔جمعیۃ کے وفد میں ناظم عمومی کے علاوہ مولانا غیور احمد قاسمی سیئنر آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولاناعرفان قاسمی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا مفتی ذاکر حسین قاسمی، مولانا احتشام قاسمی اور مولانا عظیم اللہ صدیقی شامل تھے۔علاوہ ازیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ نئی دہلی، رفیع مارگ پر واقع ساڑھے تین سو سالہ سنہری مسجد کو شہید کر نے کی کسی بھی سازش کو قبول نہیں کیا جائے گا۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کہا کہ نیو دہلی مونسپل کونسل نے ایک مبہم نوٹس جاری کر کے سنہری مسجد کو شہید کر نے سے متعلق لوگوں سے اعتراضات طلب کئے ہیں۔ نوٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ دہلی ٹریفک کمشنر نے مسجد کے اردگرد ٹریفک کے بآسانی گزرنے میں پریشانی کا اظہار کر تے ہو ئے این ڈی ایم سی سے اس مسجد کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیاہے۔ جس پراین ڈی ایم سی نے مسجد کا مشترکہ معائنہ کیا اور اس معاملہ کو مذہبی کمیٹی کے سپرد کیا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ نام نہاد مذہبی کمیٹی نے اتفاق رائے سے یہ کہہ دیا ہے کہ مسجد کو منہدم کیا جا سکتا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ سنہری مسجد نہ صرف ایک قدیم مسجد ہے بلکہ ان 123وقف اراضیوں میں شامل ہے جس پر ہائی کورٹ نے اسٹے لگا رکھا ہے ۔ اسی طرح یہ مسجد ہیریٹج پراپرٹیز کے گریڈ III میں بھی شامل ہے جس کے بارے میں ہیریٹج کنزویشن کمیٹی کی ہدایت ہے کہ یہ عمارتیں سماجی اور فن تعمیر و جمالیاتی حسن کے لحاظ سے مخصوص اہمیت کی حامل ہیں۔ لہٰذا ان کا منہدم کیا جانا اس لحاظ سے بھی غلط ہے۔مسجد کو شہید کر نے کے لئے ٹریفک کا بہانہ کھڑا کیا گیا۔ اس سے قبل اس مسجد کے انہدام کے اندیشہ کے پیش نظر عدالت میں کیس داخل کیا گیا تھا اور عدالت نے اس پر اسٹے لگاتے ہو ئے یہ یقین دہائی کرائی تھی کہ اسے منہدم نہیں کیا جائے گا۔ اس یقین دہائی کے بعد ہی اس کیس کو واپس لے لیا گیا تھا۔ این ڈی ایم سی اگر عدالت کی اس یقین دہائی کے خلاف کاروائی کر تا ہے تو توہین عدالت کا بھی مرتکب ہو گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ مسلمانان ہند مسجد کے انہدام کو برداشت نہیں کریں گے۔ مسجد اللہ کا گھر اور وقف الی اللہ ہے۔ اس کو نہ تو منتقل کیا جا سکتا ہے، نہ ہی ا س کی کو ئی خرید فروخت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا این ڈی ایم سی اپنے اس مذموم ارادے سے فوری باز آجائے اور ملک کی راجدھانی میں خواہ مخواہ فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے سے گریز کر ے۔ اس سلسلے میں کچھ دینی تنظیمیں اور انصاف پسند لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی لیگل کمیٹی اس سلسلے میں ان کا تعاون کر سکتی ہے۔ہم ریاستی و مرکزی حکومتوں پر یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ مساجد، منادر، گرودواروں و دیگر عبادت گاہوں کے انہدام کے ارادوں سے فوری طور پر باز آجائیں اور ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال کو مزید پراگندہ کر نے کی کوشش نہ کر یں۔