سید مجاہد حسین
نئی دہلی :6 جون ،سماج نیوز سروس :نئی دہلی میںمرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ کشتی کے پہلوانوں کی میٹنگ اور اس کے بعددو پہلوانوں کی ریلوے کی نوکری دوبارہ جوائن کرنے کی خبروں کے بعد یہ قیاس لگائے جارہے تھے کہ اب پچھلے ڈھائی ماہ سے جاری تنازع عنقریب سلجھا لیا جائےگا ۔لیکن پہلوانوں نے اس خبر کی اگلے ہی دن تردید کر دی اور کہا کہ ان کی تحریک ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ جاری ہے۔اس خبر کی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی جس نے کچھ راحت کی سانس لی تھی ،ایک بار پھر بے چین ہو اٹھی ہے ۔مبصرین کا خیال ہے کہ دہلی میں پہلوانوں کی تحریک سے بی جے پی کی مشکلیں کم ہونے کے بجائےاب بڑھتی جا رہی ہیں ،اسے اندازاہ ہوگیا ہے کہ معاملہ کچھ زیادہ بگڑ گیا ہے اور اس کو کسان تنظیموں کے علاوہ دیگر تنظیموں کی مضبوط حمایت حاصل ہو رہی ہے ۔جہاںایک جانب سیاسی تجزیہ نگاراس معاملہ کو خواتین کے تحفظ پر سوالیہ نشان کے طور پر دیکھ رہے ہیںتووہیں پہلوان خود اس کو خواتین کے تحفظ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ ماحول سے بی جے پی پریشان ہے ،اسےاندازہ ہوگیا ہے کہ معاملہ کو بہتر ڈھنگ سے سنبھالا جاسکتا تھا ۔اس میں غلط نہیں کہ حکومت کی جانب سے اس معاملہ میں جو کوششیں شروع ہوئیں وہ کافی دیر سے ہوئیں ۔مرکزی وزیر داخلہ شاہ نے جس طرح سے پہلوانوں سے ملاقات کی اور انہیں جس طرح سے یقین دہانی کرائی گئی ،اس سے کہنا پڑےگا کہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش ہوئیہے، لیکن یہ کوشش کتنی رنگ لائی ،ابھی کہنا جلد بازی ہوگی۔بتادیں کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت بظاہر میڈیا کے سامنے کچھ بولنے سے پرہیز کررہی ہو اور اندرونی طورسے برج بھوشن کے خلاف کوئی قدم اتھانے سے بچ بھی رہی ہو لیکن یہ بات قطعی غلط نہیں کہ پارٹی میں پہلوانوں کے معاملے پر اختلافات ابھر کر ظاہر ہونے لگے ہیں۔بی جے پی کے چار لیڈروںنے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ صورتحال کو بلاوجہ طور دیا گیا ،اسے وقت رہتے سلجھایا جاسکتا تھا ،آگے نہیں بڑھنے دینا چاہئے تھا۔بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ مینکا گاندھی پریتم منڈے ببانگ دہل کہہ چکے ہیں کہ پہلوانوں کو انصاف ملنا چاہئے ،جبکہ اس تنازعہ کا ایک اور پہلو ہے کہ جو پارٹی شاید سمجھنے لگی ہے۔در اصل یہ محض پہلوانوں کا دھرنا نہیں ہے ،یہ دھرنا’’ خواتین پہلوانوں‘‘ کا ہے ۔ بی جے پی خواتین کے مفادات کی بات کرتی رہی ہے۔سال 2014میں’’اجولا‘‘ جیسی اسکیموں سے پارٹی کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن اب اس تحریک سے پارٹی کافی فکرمند ہے ،کیونکہ اس تحریک کو خواتین کے تحفظ اور ان کے مفادات کےنکتہ نظر سے زیادہ دیکھا جانے لگاہے ۔بی جے پی کو یہ اندازہ قطعی نہیں تھا کہ پہلوانوں کی تحریک اتنی شدت اختیار کرلے گی ۔ اسے اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پہلوانوں کو اپوزیشن گروپس کا مکمل سپورٹ حاصل ہو رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیاںاس کی حمایت میں اتر آئی ہیں ۔سابق گورنر ستیہ پال ملک بھی اب حکومت کے خلاف فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں اوران کےانکشافات حکومت کے لئے درد سر ثابت ہوئے ہیں،اس بات کواب پارٹی بھی سمجھنے لگی ہے ۔قابل ذکر ہے کہ وزیرداخلہ سے ملاقاتی پہلوان بجرنگ پونیا نے آج تمام قیاسوںکو درکناراور افواہوںکی تردید کرتے ہوئے میڈیا سے کہا کہ ان کا حکومت سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے، اور سمجھوتے کی بات غلط ہے۔ ان کی تحریک جاری رہے گی یہ بات درست ہے کہ وہ امت شاہ سے ملے تھے۔ ادھر اس معاملے میں پولس کی چھان میں آئی تیزی سے بھی یہ مطلب نکالے جارہے ہیں کہ برج بھوشن کے خلاف شکنجہ سخت ہوتا جارہا ہے ۔ پولس نے انکےٹھکانوں سے کئی کاغذات ضبط کئے اور ان کے ساتھیوں سے پوچھ تاچھ کی ہے۔یہ وہ پیش قدمی ہے جو بی جے پی کی الجھن کو عیاس کرتی ہے۔الغرض ،غلط نہیں کہ 2024 کے عام انتخابات قریب ہیں اور پارٹی کسی بھی صورت تحریک کا سر کچل دینا چاہتی ہے اسے فکر ہے کہ اگر تحریک ملک گیر سطح پر جاری رہی تو بی جے پی کوخسارہ بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔