واشنگٹن: امریکی ویب سائٹ ’ایکسیس‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل ایران کی جانب سے جوہری پروگرام کی بحالی کی کسی بھی کوشش کے جواب میں نئی فوجی کارروائیوں کے امکان کے تحت تیاریوں میں مصروف ہے۔ اسرائیلی حکام کو توقع ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مخصوص حالات میں ان حملوں کی حمایت کریں گے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کا جوہری معاملہ امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں پیر کی شام ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ نیتن یاھو کی کوشش ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ نہ صرف ایران سے مذاکرات پر ہم آہنگی پیدا کریں بلکہ ان ممکنہ منظرناموں پر بھی بات چیت کریں جو اسرائیلی حملوں کو جواز فراہم کر سکتے ہیں۔دو باخبر ذرائع کے مطابق نیتن یاھو کے مشیرِ اعلیٰ رون دیرمر نے حالیہ دورہ واشنگٹن کے بعد بند کمروں میں ہونے والی بریفنگز میں کہا کہ انہیں اس تاثر کے ساتھ واپسی ہوئی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مخصوص حالات میں ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی تائید کرے گی۔ذرائع کے مطابق جن ممکنہ اقدامات کو اسرائیلی کارروائی کا جواز بنایا جا سکتا ہے ان میں ایران کی جانب سے فردو، نطنز اور اصفہان میں متاثرہ تنصیبات سے اعلیٰ سطح پر افزودہ یورینیئم کی منتقلی، یا جوہری پروگرام کی دوبارہ تعمیر شامل ہیں، خاص طور پر افزودگی کی تنصیبات کا دوبارہ فعال ہونا ہے۔رون دیرمر نے گذشتہ ہفتے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وائٹ ہاؤس کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف سے ان معاملات پر تفصیلی بات چیت کی۔اگرچہ صدر ٹرمپ 12 روزہ ایران-اسرائیل جنگ کے بعد دو مرتبہ اس امکان کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی افزودگی دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں امریکہ حملہ کر سکتا ہے، تاہم وہ ساتھ ہی ایران کے ساتھ سفارتی مذاکرات کے ذریعے تصفیہ چاہتے ہیں تاکہ کسی نئے تنازع سے بچا جا سکے۔دیرمر اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ایران کے افزودہ یورینیئم کے ذخیرے پر خصوصی توجہ دی گئی، جو اس وقت 400 کلوگرام ہے اور 60 فیصد افزودگی کے درجے تک پہنچ چکا ہے۔ یاد رہے کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے 90 فیصد افزودگی درکار ہوتی ہے۔ یہ ذخیرہ فی الحال ایران کی تین متاثرہ تنصیبات میں موجود ہے، جنہیں مکمل طور پر تباہ نہیں کیا گیا۔اسی حوالے سے ایرانی صدر مسعود بزشکیان نے ایک انٹرویو میں امریکی صحافی ٹَکر کارلسن کو بتایاتھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے اور فی الحال ایران کو مکمل جائزہ لینے میں مشکلات درپیش ہیں۔امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس وقت ایران کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی اقدام جیسے یورینیئم کی منتقلی یا افزودگی کی بحالی کی بروقت نشاندہی کی جا سکے۔دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ایلچی اسٹیو ویٹکوف آئندہ چند روز میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کریں گے تاکہ جوہری مذاکرات کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ایرانی حکام نے اس مجوزہ ملاقات کی تیاری کی تصدیق کی ہے،تاہم اس کا حتمی وقت اور تاریخ طے نہیں ہوئی۔ادھر دیرمر نے اسرائیلی حکام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ آئندہ کسی بھی جوہری مذاکرات میں ایران کو اس کی سرزمین پر یورینیئم افزودہ کرنے کی اجازت نہ دینے کے اصول پر قائم ہے۔