30سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہے ، نے اگست میں مدراس ہائی کورٹ میں اپنی رہائی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل 142کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔قبل ازیں مدراس ہائی کورٹ نے ان کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ آرٹیکل 142کے تحت سپریم کورٹ کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔تمل ناڈو کی ڈی ایم کے حکومت نے سپریم کورٹ میں ان درخواستوں کی حمایت کی جس میں دو مجرموں کی سزا میں تبدیلی اور رہائی کی درخواست کی گئی تھی، جو تیس سال سے زیادہ عمر کی سزا کاٹ رہے ہیں۔سات مجرموں میں سے نلنی اور روی چندرن نے مدراس ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جس میں ریاستی کابینہ (سزا میں معافی) کے فیصلے اور 18مئی کو شریک مجرم اے جی پیراریولن کو رہا کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیا گیا تھا، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں مجرموں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ عرضی پر سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ اپنی رائے پیش کرے ۔ریاستی حکومت نے ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ قانون کے مطابق گورنر آئین کے آرٹیکل 161کے تحت ریاستی کابینہ کی مدد اور مشورے کا پابند ہے ۔ ریاستی حکومت نے چار سال قبل سبھی ساتوں مجرموں کی سزا میں معافی کو منظوری دی تھی۔ کابینہ کا یہ فیصلہ 11ستمبر 2018کو گورنر کو بھیجا گیا تھا جس پر فیصلہ نہیں آیا۔دریں اثنا 27جنوری 2021کو گورنر نے ریاستی کابینہ کی سفارشات صدر کو دی تھی، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ۔ریاستی حکومت نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ دونوں درخواست گزاروں نے 30سال سے زیادہ جیل کی سزا کاٹی ہے ۔ دریں اثنا، شریک مجرم اے جی پیراریولن کو سپریم کورٹ نے 18مئی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے گورنر کی طرف سے کابینہ کی سفارش پر فیصلہ کرنے میں غیر معمولی تاخیر اور 31سال سے زیادہ کی جیل کی سزا کاٹتے ہوئے خصوصی اختیار کے استعمال میں رہائی کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ نے پیراریولن کے معاملے میں آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت مکمل انصاف کرنے کیلئے اپنے غیر معمولی اختیارات کا استعمال کیا تھا۔پیراریوالن 9مارچ 2022سے پہلے ہی ضمانت پر باہر تھے ۔پیراریولن کی رہائی کے بعد نلنی اور روی چندرن نے عدالت عظمیٰ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ میں اپنی درخواست دائر کی تھی، لیکن وہاں انہیں مایوسی ہوئی۔ ہائی کورٹ نے 17جون کو کہا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 142کے تحت عدالت عظمیٰ کی طرف سے دیے گئے اسی طرح کے حکم کو منظور کرنے کے اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتا۔