وزیر اعظم چور ہے بظاہر یہ ایک سیاسی نعرہ ہے اور اس کا اپوزیشن کے ذریعہ اس کا استعمال ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے ۔لیکن کسی جمہوری ملک میں اس طرح کے جملوں پر چونکہ کوئی قانونی گرفت نہیں ہو سکتی اس لئے اس کا چلن عام ہو گیا ہے ۔ظاہر ہے کہ قانونی گرفت سے دور اس جملہ کا اب دھڑلے سے استعمال ہورہا ہے اور تقریبا تمام سیاسی پارٹیاں کرتی رہی ہیں لیکن اسی وقت تک جب تک وہ خود برسر اقتدار نہ ہوں ۔یہ نعرہ اہم اور فکر انگیز اس لئے بھی ہے کہ اس سے سیاسی وقار اور سیاسی اقدار کو دھکا لگتا ہے ۔ اور اس میں تاریخی بازگشت اور آئین کی حرمت کہیں نہ کہیں پامال ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ آئیں سب سے پہلے نعرے کی تاریخ اور سیاسی سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں، اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ ایک تاریخ دہرانے کی مثال ہے۔ اور کیا اس نعرے سے آئین یا موجودہ وزیر اعظم کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
“گلی گلی میں شور ہے اندرا گاندھی چور ہے” اس وقت گونجتا شروع ہوا تھا جب اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں اور انہوں نے ملک میں ایمرجنسی جنسی نافذ کر دی تھی ،ساتھ ہی ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو داخل زنداں کر دیا تھا ۔یہ ایک مقامی سیاسی نعرہ تھا یا تازہ تناظر میں میڈیا یا عوامی بول چال کا حصہ بنا۔ یاد رہے کہ اس وقت یہ نعرہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کا نعرہ تھا جو حزب اختلاف میں تھے ۔لیکن آج جب یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے اس وقت ان اپوزیشن پارٹیوں کے وفاق کی ایک پارٹی ہی برسر اقتدار ہے جبکہ اس تحریک کی زیادہ تر پارٹیاں کانگریس کے ساتھ مل کر "چوکیدار چور ہے "کا نعرہ لگا رہی ہیں ۔یہ نعرہ ایک معروف سیاسی جنگ کا حصہ رہا اور کانگریس نے 2018–2019 کے عام انتخابات میں اس کا خوب استعمال کیا تھا۔ یہ نعرہ راہول گاندھی نے رافیل ڈیل کے خلاف استعمال کیا، جہاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم جو خود کو چوکی دار کہتے ہیں وزیراعظم در حقیقت چور ہیں ۔ یہ سیاسی طنز اور حملے کا اہم ہتھیار بنا۔اور اس کے جواب میں وزیراعظم نریندر مودی نے "میں بھی چوکی دار ہوں "مہم چلائی، جہاں انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پروفائلز اور حامیوں کے نام کے ساتھ "چوکی دار” شامل کیا اور اسے مثبت دفاعی پیغام کے طور پر پیش کیا۔سپریم کورٹ میں بھی اس پر بحث ہوئی، لیکن عدالت نے اس نعرے کی دفاعی سیاسی نوعیت کو تسلیم کرتے ہوئے راہول گاندھی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔یہ سوال کہ کیا اندرا گاندھی کے خلاف جو نعرہ دیا گیا تھا وہ تاریخ کا ایک گمشدہ باب ہے لیکن اب تاریخ خود کو دہرا رہی ہے اور بی جے پی کے وزیر اعظم کو بھی اسی نعرے کا سامنا ہے ؟اس کا تجزیہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اس سوال میں حقیقت کا شائبہ کم اور کڑی سے کڑی ملا کر بات بنانے کا انداز زیادہ ہے ۔کیونکہ اندرا گاندھی کے دور میں (1970–80 کی دہائی) سیاسی نعرے زیادہ تراقتدار مخالف تحریکوں، یا اضطراب کا حصہ تھے۔ مثلاً "اندرا گاندھی چور ہے” جیسا کوئی معروف نعرہ دستاویزی سطح پر عام نہیں اور عموماً علاقائی رجحان یا موہوم عوامی تاثر بھر رہ گیا ،یا اب جو نسل اس دور کی یاد گار باقی ہے ان ہی کے ذہنوں میں یہ نعرہ ہے ۔اس کا کوئی کاغزی ثبوت نہیں ہے ۔لیکن آج کے سیاسی ماحول میں، جب نعرہ "چوکیدار چور ہے” ابھر کر سامنے آیا ہے تو یہ کسی تاریخی تقلید یا شعوری یادداشت کو دہرانے سے زیادہ، سیاسی حربہ اور تنقیدی اظہار کی صورت میں سامنے آیا، خاص طور پر الیکشن مہم کے دوران۔
لہٰذا، یہ کہنا کہ "تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے” شاعرانہ اور تجزیاتی لحاظ سے معنی خیز ہو سکتا ہے، لیکن حقیقت میں دونوں نعرے مختلف سیاسی اور زمانی پس منظر رکھتے ہیں، اور براہ راست ایک دوسرے کی تقلید تصور نہیں کیے جا سکتے۔اور اس سے آئین یا ملک کی شرمساری کا کوئی تعلق نہیں ۔کیونکہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے جس کی حرمت کا انحصار سیاسی اور معاشرتی رویوں پر ہوتا ہے۔ ایک نعرہ بذات خود آئین کو نشانہ نہیں بناتا جب تک اس سے قانون کی توہین یا آئینی اقدار کا انحطاط نہ ہو۔
قدرتی سیاسی کہانی (Political narrative) میں اختلافی نعرے عام ہیں، چاہے کسی وزیر اعظم کو طنزیہ طور پر چوکی دار کہہ کر چور کہنا ہو۔ یہ اظہار رائے کی آزادی کے دائرہ میں آتا ہے، بشرطیکہ قانون کی حدود میں ہو۔اگرچہ یہ نعرے سیاسی اخلاقیات اور عوامی جذبات کو چھیڑتے ہیں، لیکن خود آئین باقاعدگی سے محفوظ ہے اور اسے ایسے سیاسی تنازعات سے جوڑنا، صورتِ حال کا تجزیاتی پہلو ہو سکتا ہے—لیکن آئین کی شرمساری کا الزام لگانا مبالغہ ہو سکتا ہے جب تک کوئی آئینی خلاف ورزی نہ ہو۔”اندرا گاندھی چور ہے” جیسا نعرہ اگر موجود بھی رہا، اسے معروف یا دستاویزی حیثیت حاصل نہیں۔ وہ محض عوام یا سیاسی منافرت کی بازگشت ہو سکتا ہے۔ "چوکیدار چور ہے” ایک ٹھوس سیاسی مہم کی صورت میں سامنے آیا۔جبکہ دستیاب سرکاری یا دستاویزی ذرائع میں “اندرا گاندھی چور” کا کوئی واضح ذکر نہیں ہے ۔جبکہ "چوکیدار چور ہے ” کا نعرہ راہول گاندھی نے 2018–19 میں رافیل معاہدے کے خلاف استعمال کیا، اور اس کے جواب میں وزیراعظم نے "میں بھی چوکیدار ” مہم چلائی۔ جسے سپریم کورٹ نے سیاسی اظہار آزادی تسلیم کیا۔دراصل یہ دونوں نعرے مختلف تاریخی حالات میں سامنے آئے اور براہِ راست ایک دوسرے کا تسلسل نہیں ہیں۔ یہ محض سیاست میں تشبیہ دینے کا ایک زاویہ ہو سکتا ہے، ملک یا آئین کے لیے زیربحث ہونا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ آئین واقعی شرمسار ہو رہا ہے۔سیاسی نعرے آزادی اظہار کا حصہ ہیں جب تک آئین یا عدالت کی توہین نہ ہو۔ "چوکیدار چور ہے” ایک سیاسی حملہ تھا لیکن آئینی خلاف ورزی ثابت نہیں ہوئی، اس لیے شرمساری کا الزام سیاسی الزام تراشی کا معاملہ تو ہو سکتا ہے آئین کی شرمساری کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ سوال ایک معنوی اور تاریخی تجزیے کی دعوت تو دیتا ہے اور اسی لئے میں نے دوسروں کی طرح میں نے سیاسی نعرے کی تاریخ، ان کا مقصود، اور آئینی معنویت کے زاویے کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ نتیجتاً معروف سیاسی نعرے کا دو مختلف ادوار میں دوبارہ جنم لینا کسی نہ کسی حد تک سیاسی تاریخ کا بازگشت تو ہو سکتا ہے، مگر اسے "تاریخ کا ایک حقیقی چکر” کہنا زیادہ شاعرانہ اور تجزیاتی ہو گا، کوئی حقیقی قانونی یا آئینی مسلہ نہیں ہے۔آئین شرمسار نہیں ہوتا، بلکہ سیاسی مذاق بنتا ہے ۔ جب تک ریاست اور عدالتیں خود غیر جانبدار رہیں اور قانون کا تحفظ برقرار رکھنے کے عہد پر عمل کریں ۔