نئی دہلی 7 جون : طویل عرصے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات شروع ہونے پرآل انڈیاشیعہ کونسل نے اظہار اطمینان کیا ہے شیعہ کونسل کے قومی ترجمان مولانا جلال حیدر نقوی نے سعودی عرب میں سات سال بعد ایرانی سفارت خانہ دوبارہ کھولے جانے کے عمل کو خطے میں بہتری اور امن بحالی کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ممالک کے بہتر رشتے پوری دنیا کے لیے بہتر اور مفید ثابت ہوں گے۔
شیعہ کونسل کے صدر مولانا جنان اصغر مولائی نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے روابط صرف دو ملکوں کے روابط نہیں ہیں بلکہ یہ مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لئے اہمیت کے حامل ہیں اور خاص طور پر ان کے بہتر رشتوں کا اثر پوری امت مسلمہ پر پڑے گا مولانا جنان اصغر نے کہا کہ اب یمن اور سیریا میں بھی خوشگوار ماحول بن رہا ہے۔ شام میں داعش کے ذریعے اور یمن میں سعودی حملوں سے جو تباہکاریاں ہوئی ہیں ان کی باز آبادکاری کے لئے بھی راہیں کھلیں گی۔
اس موقع پر اہلبیت کونسل انڈیا کے صدر مولانا محمد رضا غروی نے کہا کہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایران اور سعودی عرب کے بہتر اور خوشگوار رشتوں سے امیدیں وابستہ ہیں انھوں نے کہا کہ ان دونوں ممالک کے روابط بحال ہونے کی صورت میں ہندوستانی حکومت اور عوام کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ ہندوستان میں ان دونوں ممالک کے کروڑوں فال اوور کافی دنوں سے بہتر روابط اور اچھے رشتوں کی امید رکھتے ہیں ۔ اس موقع پر مولانا نے کہا سعودی عرب میں ایرانی سفارت خانے کا دوبارہ کھولا جانا تعلقات میں نئے دور کا آغاز ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں یہ خبر پوری دنیا کے لئے خوش آئند اور پر مسرت ہے وہیں ہمارے ملک عزیز ہندوستان کے لئے بھی سیاسی اور سفارتی طور پر خوش آئند ہے ،حکومت ہندوستان کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے اور قدیمی رشتے ہیں اور ہندوستان کو تجارتی و اقتصادی اعتبار سے دونوں ملکوں کے درمیان وساطت پیدا کرکے ترقی کی راہیں کھولنے کا موقع فراہم ہوگا۔ جو ایران اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ہندوستانی قوم کے مفاد میں بھی ہوگا۔
شیعہ کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا مرزا عمران علی نے دونوں ممالک کے روابط کو خوش آئند بتاتے ہوئے کہا کہ ان ممالک میں ماحول سازگار ہونے پر کئی اسلامی ممالک کو امن اور استحکام حاصل ہوگا اور دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ ان مذہبی موضوعات پر کہ جو ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کا سبب بنے ہوئے ہیں ان کو سفارتی کوششوں سے حل کئے جانے کی امید قائم ہوگی اور حجاج کرام اور زائرین کے لیے بھی ان ممالک کے درمیان رشتوں کا اثر اچھی خبر ثابت ہوگا