اجیت انجم کوئی نیا نام نہیں، لیکن حالیہ دنوں میں وہ جس بے باکی، تحقیق، اور ایمانداری کے ساتھ بہار کی زمینی صورتحال کو قوم کے سامنے لا رہے ہیں، اس نے انہیں صرف ایک صحافی نہیں بلکہ عوام کی آواز بنا دیا ہے۔ ان کی رپورٹنگ میں وہ خلوص اور خطرہ مول لینے کا جذبہ نظر آتا ہے جو جدید دور کی صحافت میں خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ اجیت انجم ایک بار پھر حزب اختلاف کو جگانے میں ناکام رہے ہیں ۔مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ وہ مہابھارت میں ارجن کے بیٹے ابھیمنیو کی طرح گھیر کر مار نہ دئے جائیں ،اور اگر اپوزیشن کی بے حسی کی وجہ سے ایسا ہو گیا تو پھر نظام ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوئی ہمت نہیں کر سکیگا۔پھر تو یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ جو اپوزیشن جی بھر کر مین اسٹریم میڈیا کی برائی کرتا ہے اور اسے گودی میڈیا نام دیتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے ،وکٹیم کارڈ کھیلتا ہے ۔اس کو خود اپنے اوپر اعتماد نہیں ۔وہ اپنی ڈیوٹی پوری کرنے میں ناکام رہی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح برسر اقتدار بی جے پی اور اس کے حواری اپنی آئینی ڈیوٹی پورے کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ یہ بات حزب اختلاف کو یاد رکھنی ہوگی کہ اب وقت بدل چکا ہے اور ملک کی مین اسٹریم میڈیا وہ یو ٹیوبر ہی ہیں جو حکومت کی ہر غلط پالیسی اور فیصلہ کے خلاف جم کر کھڑے ہیں ۔اور اجیت انجم ان تمام یو ٹیوبر کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔آج ضرورت تھی کہ ملک کے تمام حزب اختلاف کے لوگ یا تو سڑک پر ہوتے یا پھر جیل میں۔یقینا دو دن بعد پارلیمنٹ میں کے سیشن کے دوران اس ایشو پر خوب ہنگامہ آرائی ہوگی ۔لیکن اس سے بات بننے والی نہیں ۔حزب اختلاف کی سمجھ میں یہ بات آنی چاہئے کہ انہیں کب سنسد میں رہنا ہے اور کب سڑک پر ۔
یہ معمولی بات نہیں کہ اجیت انجم نے بہار کے مختلف اضلاع — جیسے پٹنہ، سیوان، مدھوبنی، دربھنگہ، اور کٹیہار — میں جا کر ووٹر لسٹ میں ہونے والی مبینہ چھیڑ چھاڑ، اقلیتی علاقوں میں ووٹروں کے نام غائب ہونے، بوگس ناموں کے اندراج اور انتخابی فہرست کی غیر شفافیت پر حکومت وقت اور خاص طور پر الیکشن کمیشن کی پول پٹی کھول دی ۔اور عوام الناس کو یہ بتا دیا کہ جن حکمرانوں کو دیوتا کا درجہ دئے بیٹھے ہو وہ سب تمہارے جمہوری اور آئینی حقوق کو تم سے چھین کر تمہیں غلام بنا چکے ہیں ۔اور اس کام میں ملک کی تمام سرکاری ایجنسیاں ان کے ساتھ کھڑی ہو چکی ہیں ۔جو ویڈیوز اور رپورٹس اجیت انجم نے پیش کی ہیں وہ چونکا دینے والی ہیں ۔ایک ویڈیو میں تو انہوں نے واضح طور پر دکھایا کہ کس طرح ایک ہی علاقے کے کئی گھروں میں رہنے والے حقیقی ووٹرز، جن کے پاس تمام شناختی دستاویزات موجود ہیں، ان کے نام لسٹ سے غائب ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے نام بغیر کسی ربط کے شامل کر دیے گئے ہیں۔ انجم نے سوال اٹھایا کہ آخر یہ سب کیوں اور کس کے اشارے پر ہو رہا ہے؟ کہیں یہ جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوئی منظم کوشش تو نہیں؟
اجیت انجم یہیں پر نہیں رکے ۔ انہوں نے ریاستی الیکشن آفس، مقامی انتظامیہ، اور دیگر متعلقہ اداروں سے سوالات پوچھے — نہایت تہذیب کے ساتھ، لیکن دبنگ لہجے میں۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں، بلکہ دلت، مہادلت، اور دیگر محروم طبقات کی ووٹر فہرست میں کی گئی گڑبڑیوں کو بھی نمایاں کیا۔ ان کی یہ رپورٹنگ دیکھ کر ایک طرف عوام میں بیداری آئی، تو دوسری طرف اقتدار کے ایوانوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک صحافی جس نے صرف سچ دکھایا، اس پر ایف آئی آر درج کر دی گئی۔ یہ محض ایک ایف آئی آر نہیں بلکہ آزادیٔ صحافت، زمینی سچائی اور عوام کے حقِ رائے دہی پر حملہ ہے۔ اگر اجیت انجم کو خاموش کرنے کی کوشش کامیاب ہوئی، تو کل کسی اور صحافی کو بھی سچ بولنے کی ہمت نہ ہوگی۔یہ قابلِ افسوس امر ہے کہ آج سچ دکھانا جرم بنتا جا رہا ہے۔ وہ صحافی جو اسٹوڈیو کی چمکتی لائٹوں میں بیٹھ کر اقتدار کا گیت گاتے ہیں، ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں، لیکن جو زمین پر اتر کر اصل مسائل دکھائے، وہ مجرم قرار پاتا ہے۔ہم اس اداریے کے توسط سے اجیت انجم کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی رپورٹنگ صحافت کی روح ہے۔ اگر صحافت کو واقعی چوتھا ستون سمجھا جائے تو ایسے صحافیوں کی حفاظت، ان کے سوالوں کو سننا اور ان کے انکشافات پر ایکشن لینا، نظام کی ذمہ داری ہے، نہ کہ ان پر مقدمہ درج کرنا۔اجیت انجم نے ایک ویڈیو میں کہا تھا:
"میں کسی پارٹی کے لیے نہیں، صرف سچائی کے لیے کھڑا ہوں۔ ووٹر لسٹ کے نام پر جو دھاندلی ہو رہی ہے، وہ اگر آج نہ روکی گئی تو کل جمہوریت صرف کاغذوں میں رہ جائے گی۔”
یہ سچ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج اجیت انجم صرف ایک صحافی نہیں، بلکہ جمہوریت کے ایک محافظ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔