نئی دہلی: دنیا میں کئی ممالک اس وقت معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، مثلاً گزشتہ کچھ سالوں میں کووڈ وبا کی مشکلیں اور روس-یوکرین جنگ۔ اب ایسے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت کو رفتار فراہم کرنے میں بطور ایندھن استعمال کیا جانے والا ’ڈیزل‘ مہنگا ہو سکتا ہے۔ دراصل ڈیزل سے ہی ٹرک، بسیں، جہاز اور ٹرینیں چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیزل کا استعمال کنسٹرکشن، مینوفیکچرنگ کے علاوہ زرعی شعبہ میں بھی کیا جاتا ہے۔ سرد ممالک میں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے بھی ڈیزل کا استعمال کیا جاتا ہے اور جب قدرتی گیس کی قیمت آسمان چھو رہی ہے تو ایسے میں کئی جگہ ڈیزل کا استعمال گیس کی جگہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ڈیزل کی سپلائی میں کمی ہوگی جس سے دنیا کے ہر انرجی مارکیٹ میں ڈیزل کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ظاہر ہے کہ ڈیزل کا بحران بڑھے گا تو اس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ بھی ہوگا۔ اس سے سرد ممالک میں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے موٹی رقم خرچ کرنی پڑ سکتی ہے۔ دھیان دینے والی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ میں صرف ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب وہاں کی معیشت پر 100 ارب ڈالر کا مالی بوجھ بڑھنے کا اندازہ ہے۔ امریکہ میں ڈیزل اور ہیٹنگ آئل کا اسٹاک چار دہائیوں کی ذیلی سطح پر ہے۔ نارتھ ویسٹ یوروپ میں بھی اسٹاک کی کمی ہے۔ روس پر لگائی گئی معاشی پابندیوں کے عمل میں آنے کے بعد مارچ 2023 میں بحران مزید گہرا سکتا ہے۔ڈیزل کے ممکنہ بحران کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبل ایکسپورٹ مارکیٹ میں ڈیزل کا ایسا بحران ہے کہ پاکستان جیسے غریب ممالک کو گھریلو ضرورتوں کے لیے سپلائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نیو یارک ہاربر، جو کہ بنچ مارک ہے اس کے اسپاٹ مارکیٹ میں ڈیزل کی قیمتوں میں اس سال 50 فیصد کا اضافہ آ چکا ہے۔ نومبر میں 4.90 ڈالر فی گیلن قیمت پہنچ چکا ہے جو کہ ایک سال قبل کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ نارتھ ویسٹ یوروپ میں ڈیزل کے فیوچر کا ریٹ برینٹ کروڈ سے 40 ڈالر زیادہ ہے۔