دہلی، ہمارا سماج: مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے شیخ العرب والعجم ،سابق استاد دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ، سابق صدر المدرسین مدرسہ دارالتکمیل مظفرپور،بہار،بزرگ و معمر ترین عالم دین ،بقیة السلف استاذ الاساتذہ مولانا فضل الرحمن سلفی صاحب کے سانحہ ارتحال پر نہایت رنج و افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کی موت کو ملک و ملت ،جماعت اور علمی دنیا کا عظیم خسارہ قرار دیا ہے۔امیر محترم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن سلفی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔آپ بڑے خلیق وملنسار ،علماءوطلبہ نواز، دینی وجماعتی غیرت سے سرشار ، متقی و پرہیزگار اور حقیقی معنوں میں وارث علوم نبوت تھے۔آپ کا تعلق مولانگر سیتامڑھی بہار کے ایک معروف علمی و دینی خانوادے سے تھا۔ابتدائی تعلیم والد گرامی سند العلما ءحافظ عبدالستار صاحب سے حاصل کی۔1938ءمیں ہندوستان کی قدیم ترین دینی دانشگاہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ میں داخلہ لیا اور 1943ءمیں سند فضیلت حاصل کی۔آپ اس وقت دارالعلوم کے سب سے قدیم فارغ التحصیل تھے۔آپ بیک واسطہ شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے فیض یافتگان میں سے تھے کیوں کہ آپ نے مولانا محمد اسحاق آروی اورمولانا عبد الغفور جیراجپوری رحمہما اللہ ارشدتلامذہ شیخ الکل سے کسب فیض کیا تھا۔ اسی طرح مولانا عین الحق سلفی،مولانا شمس الحق سلفی ، مولانا عبد الودود جیراجپوری ،مولانا مصلح الدین جیراجپوری رحمہم اللہ بھی آپ کے نامور اساتذہ میں سے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ فی زمانہ حدیث میں سند عالی کی وجہ سے مرجع علماءبنے ہوئے تھے اور برصغیر سمیت سعودی عرب ،کویت متحدہ عرب امارات ،انگلستان وغیرہ کے افاضل علماءحسب سہولت حاضر خدمت ہوکر یا آن لائن آپ سے کتب احادیث پڑھ کر سند اجازہ لیتے تھے۔ آپ نے فراغت کے ابتدائی دور میں مادر علمی دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ اور مدرسہ شیر شاہی مالدہ میں بھی درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا۔پھر مدرسہ دارالتکمیل مظفر پور سے وابستہ ہوگئے اور وہاں 23 سال تک صدر المدرسین کے منصب پرفائز رہے۔ آپ کو تصنیف و تالیف اور صحافت سے بھی دلچسپی تھی۔آپ کی ایک کتاب بنام ”حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی-حیات وخدمات“ کافی مشہور ہے۔ آپ کی پوری زندگی تعلیم وتربیت اور دعوت واصلاح کے لیے وقف رہی۔ آپ نے کئی نسلوں کی تعلیم وتربیت کی۔ افسوس کہ گذشتہ کل ۹۱ نومبر ۲۲۰۲ءکو مختصر علالت کے بعد تقریبا ساڑھے سات بجے شام بعمر تقریباً سوسال داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔مولانا نے مزید کہا کہ آپ کے شاگردوں اور فیضیافتگان کی بڑی تعداد ہے جو آپ کےلئے صدقہ جاریہ ہیں۔ان شاءاللہ۔ان کا انتقال جمعیت وجماعت اور علمی دنیا کا عظیم خسارہ ہے۔ پسماندگان میں دو صاحب زادیاں اور متعدد نواسے نواسیاں ہیں۔ ان کی تدفین آج 20نومبر 2022، اتوار کو بعد نماز ظہر مغل مسجد،چندوارہ، مظفرپور ،بہارمیں عمل میں آئی۔اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، بشری لغزشوں سے درگذرفرمائے، دینی وجماعتی خدمات کوشرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس کا مکین بنائے اورجملہ پسماندگان ومتعلقین خصوصاً داماد محمد امجد صاحب، محمود عالم صاحب بھتیجے مولانا قمر سبحانی صاحب، مولانا خورشید سلفی صاحب، تنویر صاحب،مظفر سبحانی صاحب کوصبرجمیل کی توفیق عطافرمائے اور جمعیت وجماعت کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین۔ پریس ریلیز کے مطابق مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کے دیگر ذمہ داران واراکین نے بھی مولانا کے انتقال پر اظہار رنج وافسوس کیا ہے اور ان کی مغفرت اور بلندی درجات کےلئے دعا گو ہیں۔