واشنگٹن (ہ س)۔ایک بڑے گروپ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں جمعے کو ایک وفاقی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ کریک ڈاؤن کا شکار غیر ملکی طلباء کی قانونی حیثیت بحال کی جائے۔ اس وقت کریک ڈاؤن کی وجہ سے ایک ہزار سے زیادہ طلباء کو ملک بدری کا خدشہ ہے۔امریکن سول لبرٹیز یونینز (اے سی ایل یو) سے وابستہ کئی افراد کی طرف سے دائر کردہ مقدمے میں نیو انگلینڈ اور پورٹو ریکو میں 100 سے زائد طلباء کی نمائندگی کی گئی ہے۔نیو ہیمپشائر کے اے سی ایل یو کے قانونی ڈائریکٹر گیلس بسونیٹ نے کہا، "بین الاقوامی طلباء ہماری ریاست کی یونیورسٹیز کی ایک اہم کمیونٹی ہیں اور کسی بھی انتظامیہ کو قانون کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ یکطرفہ طور پر طلباء کی حیثیت ختم کرے، ان کی پڑھائی میں خلل پیدا کرے اور انہیں ملک بدری کے خطرے سے دوچار کرے۔پورے ملک کے سکولوں میں طلباء نے عموماً بہت مختصر عرصے کے نوٹس پر ویزوں کی منسوخی یا قانونی حیثیت ختم ہونے کا مشاہدہ کیا ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے یونیورسٹی کے بیانات کے جائزے، سکول کے حکام سے خط و کتابت اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق مارچ کے آخر سے 170 سے زائد تعلیمی اداروں اور ان کے نظاموں کے تقریباً 1,100 طلباء متاثر ہوئے ہیں۔ اے پی مزید سینکڑوں متاثرہ طلباء کی رپورٹوں کی تصدیق کے لیے کام کر رہا ہے۔طلباء کے دائر کردہ دیگر مقدمات میں دلیل دی گئی ہے کہ انہیں مناسب قانونی کارروائی سے انکار کیا گیا تھا۔ وفاقی ججوں نے نیو ہیمپشائر، وسکونسن اور مونٹانا میں عارضی پابندی کے احکامات جاری کیے ہیں جس سے طلباء امریکہ سے بے دخلی سے بچ گئے ہیں۔شکایت کے مطابق نیو ہیمپشائر کی وفاقی عدالت میں دائر کردہ نئے مقدمے کے مدعیان کو پتا چلا کہ بغیر کسی انتباہ کے ان کی ایف-ون طلباء حیثیت ختم کر دی گئی جس سے ان کی ملک میں رہنے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کی اہلیت مشکوک ہو گئی۔ان میں سے ایک بھارت کے مانیکانتا پاسولا نیو ہیمپشائر کی ریویئر یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کرنے اور بین الاقوامی طلباء کے لیے ملازمت کے پروگرام کے تحت ملک میں رہنے کے لیے درخواست دینے کے قریب تھا۔ چین کے ہینگروئی ڑانگ میساچوسٹس کے ورسٹر پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ میں الیکٹرانک اور کمپیوٹر سائنس کے پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے امریکہ آئے تھے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ اب وہ ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام نہیں کر سکتے جو ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا۔وکلاء نے کہا کہ حکومت نے وہ نوٹس نہیں دیا جو غیر ملکی طلباء کی قانونی حیثیت ختم کرنے سے پہلے فراہم کرنا ضروری ہے۔محکمہ داخلی سلامتی نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔












