تازہ ترین صورتحال کے مطابق کے دن دیر رات کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ان کا ایک سوشل میڈیا ٹوئیٹ سامنے آیا کہ اسرائیل اور ایران نے ”مکمل سیز فائر“ پر اتفاق کر لیا ہے، جس کے بعد 24 گھنٹوں میں جنگ بندی مرحلہ وار نافذ ہوگی ۔یہ ٹوئیٹ ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز خوش خبری بھی تھی ۔کیونکہ اسرائیل اور ایران مابین چل رہی ہلاکت خیز بمباری کے دوران امریکہ کی براہ راست مداخلت اور ایران کے تین جوہری ری ایکٹر پر حملہ آور اس کے جواب میں ایران کی جانب سے امریکہ کے خلیج میں قائم فوجی چھاؤنیوں پر میزائل حملہ کے بعد یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کی جانب رخ کر چکی ہے ۔لیکن ایسا کچھ نہ ہو کر یکایک ٹرمپ کے سیز فائر کے اعلان نے تمام وسوسوں اور خدشات کو ختم کردیا تھا اور دنیا کے امن پسند شہریوں نے راحت کی سانس لی تھی لیکن ٹرمپ کے اس اعلان کے فورا بعد ہی
ایران کی جانب سے اس اعلان کی تردید کر دی گئی۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا کہ:
فی الحال کسی بھی قسم کا جنگ بندی یا فائر بندی پر کوئی ’معاہدہ‘ نہیں ہوا۔ تاہم اگر صبح ۴ بجے تک اسرائیل نے حملے بند کر دیے تو ایران اپنا ردعمل ختم کر دے گا” ۔
اور فی الوقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ ایرانی میزائل حملے اس اعلان کے بعد بھی جاری ہیں اور اسرائیل نے اپنے شہریوں کو پناہ گاہوں میں جانے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے ۔یہ بات خلاف عقل بھی ہے کہ اسرائیل اور ایران جو اس جنگ کے اصلی فریق ہیں ان کی جانب سے کوئی بیان آنے کی جگہ ٹرمپ کا کا ٹوئیٹ آتا ہے جنہیں شاید زبردستی ثالث بننے کا بخار چڑھا ہوا ہے ۔حالانکہ ٹرمپ نے خود ہی ایران کے جوہری مراکز پر براہ راست حملہ کر کے جنگ کو خطرناک مرحلہ میں پہنچا دیا تھا ۔اور اس کے بعد ایران نے جس طرح امریکی چھاؤنیوں پر مورٹار اور میزائیلیں داغیں اس سے بھی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ایران نہ تو خوفزدہ ہوا ہے اور نہ ہی جنگ کو انجام تک پہنچائے بغیر رکنے والا ہے ۔حالانکہ
اسرائیل اور ایران دونوں نے اس کی مضبوط تصدیق یا رد میں واضح جواب نہیں دیا ہے ۔ میزائل حملے جاری ہیں، جو کہ کہیں نہ کہیں معاہدے کی نوعیت یا عملدآمد پر سوالیہ نشان ہے۔حالانکہ ٹرمپ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ جنگ کے ۱۲ روز بعد ایک مرحلہ وار معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق پہلے ایران، پھر اسرائیل ۱۲ گھنٹے بعد۔ مرحلہ وار جنگ بندی کرینگے مگر عملی طور پر، اس کے باوجود میزائل برسائے گئے جو جنگ بندی کے اس اعلان کی تردید کرتے ہیں ۔اس سلسلہ میں ایران زیادہ محتاط ہے، اور یہ نوٹ کیا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل واقعتاً فضائی حملے بند کر دے، تو ایران بعتدال وار حملہ روک سکتا ہے۔اس معاہدے کے پیچھے قطر، یمن اور امریکہ جیسے ثالثین کا کردار نظر آتا ہے ۔لیکن ایران کی تردید یہ ظاہر کرتی ہے کہ کوئی رسمی یا طے شدہ جنگ بندی دستاویزی طور پر نہیں ہوئی، صرف سیاسی اعلان کیا گیا ہے ۔کمال یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک علاقائی سیاسی بیان ہے تاکہ کشیدگی کو عارضی طور پر کم کیا جائے، لیکن حقیقت میں حالات انتہائی نازک ہیں ۔صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ ایک اعلانی معاہدہ ہے، جس کا مقصد تیزی سے بڑھتی کشیدگی میں توازن قائم کرنا ہے ، مگر عملی سطح پر جنگ بندی زمین پر نظر نہیں آ رہی۔سوال تو یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جس طرح محض بارہ روز کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی بات سامنے آرہی ہے دوسالہ سے جاری غزہ کے سلسلے میں ایسی کوئی پہل کرنے والا نہیں ۔اور وہ صرف اس لئے کہ غزہ میں اسرائیل حاوی ہے اور وہاں نقصان صرف غزہ کے شہریوں کا ہو رہا ہے ۔ایران کو بھی اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل سے ہونے والے کسی بھی معاہدے میں وہ اسرائیل پر یہ شرط عائد کرے کہ اسے غزہ میں بھی اپنی جارحیت بند کرنی ہوگی اور وہاں اس کے ذریعہ کی گئی بربادی کی ذمہ داری لینی پڑیگی ۔ اگر سچ مچ یہ ایک سفارتی کوشش ہے تو سفارت کار ممالک کو بھی کو بھی اس دوران غزہ میں ہو رہی جارحیت سے اسرائیل کو روکنا ہوگا ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جب اسرائیل پر ایران بھاری پڑنے لگے تب تو سفارت کار ممالک فورا جنگ بندی کے لئے فعال ہو جائیں لیکن جہاں اسرائیل لگا تار فلسطینیوں کا قتل کر رہا ہو وہاں کوئی ثالث سامنے نہ آئے اور اسرائیل کو کھلی چھوٹ ملی رہے کہ وہ جب تک چاہے غزہ پر جارحیت جاری رکھے ۔ حالانکہ زمینی حقیقت ٹرمپ کے اعلان کے برعکس ہے۔ ایسی حالت میں یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ ابھی تک اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوئی؛ جو اعلان ہوا ہے وہ معاہدہ سے زیادہ مطلوبہ سفارتی اقدام معلوم ہوتا ہے، جبکہ زمینی عملی صورت حال برعکس ہے۔”