حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک مبینہ بیان نے بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت بھی ہے، روس کے ساتھ اپنی دہائیوں پرانی دوستی ختم کر دے۔ اس خواہش کا اظہار ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عالمی سیاست ایک نازک موڑ پر ہے، یوکرین جنگ جاری ہے، اور امریکہ روس کو عالمی تنہائی میں دھکیلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
ٹرمپ کا یہ مطالبہ دراصل امریکہ کے اس مستقل رویے کی عکاسی کرتا ہے جس میں وہ دوست اور دشمن کا تعین اپنے مفادات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ حالانکہ بھارت نے ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی میں "Strategic Autonomy” یعنی "تزویراتی خودمختاری” کو ترجیح دی ہے۔ خاص طور پر روس کے ساتھ اس کے تعلقات محض دفاعی تعاون تک محدود نہیں، بلکہ یہ اعتماد، تکنیکی اشتراک اور تاریخی وابستگی پر مبنی ہیں۔ روس وہ پہلا ملک تھا جس نے 1971 کی بنگلہ دیش جنگ میں بھارت کی حمایت کی تھی، جب امریکہ اور چین پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے۔آج بھی امریکہ بھارت کے مقابلے پاکستان کے زیادہ قریب ہے جبکہ پاکستان امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات کے باوجود چین سے بھی خوب مدد لیتا ہے ۔تازہ بھارت پاک جھڑپ میں بھی چین نے پاکستان کی خوب مدد کی جبکہ روس پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہوا ۔حالانکہ یہ بات خود ٹرمپ بھی جانتے ہیں ۔ان کا بھارت پاک جنگ کے آغاز میں ہی بیچ میں کودنا اور دونوں ملکوں کو جنگ بندی پر تیار کرانا بھی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ کہیں چین اور روس مل کر ان دونوں ایٹمی قوتوں کی مفاہمت نہ کرا دیں ۔کیونکہ ایسا ہوتے ہی مشرق وسطی سے امریکہ کی چودھراہٹ بالکل ختم ہو جاتی ۔حالانکہ بھارت مسلسل اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ہمارے اور پاکستان کے مابین جو جنگ بندی ہوئی ہے اس میں کسی تیسرے ملک کا کوئی رول نہیں ہے ۔لیکن ابھی تک ٹرمپ نے یہ کہنا بند نہیں کیا ہے کہ انہوں نے بھارت پاک کی فوجوں کو بیرک میں واپس بھجوایا ہے ۔حالانکہ ٹرمپ کے اس بیان پر لگاتار سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا اگر وہ اتنے ہی جڑی ہیں تو روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کیوں نہیں رک رہی ہے ۔اسرائیل غزہ میں اپنی جارحیت کیوں نہیں بند کرتا ۔
ظاہر ہے سارے سوالات بھارت سرکار کے بھی ہیں ۔اور امید کی جا رہی ہے کہ بھارت کسی بھی قیمت پر روس سے اپنے تعلقات کو خراب نہیں کریگا کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان جو اس کا سب سے بڑا دشمن ہے امریکہ اس کی سرپرستی کرتا ہے ،اس کے لئے فنڈ کا انتظام بھی کرتا ہے جبکہ روس ہر وقت پاک و ہند تنازعہ کے وقت بھارت کے ساتھ ہی کھڑا ہوتا ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما کا مطالبہ اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ آج بھی عالمی طاقتوں کو اپنی چالوں میں گھسیٹ کر اپنی بالا دستی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ بھارت اب نہ 1950 کا بھارت ہے اور نہ ہی اس کی قیادت اس حد تک تابع ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے دباؤ میں اپنی خارجہ پالیسی کا رخ موڑ دے۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ بھارت نے روس سے دوستی کے ساتھ ساتھ امریکہ سے بھی تعلقات کو وسعت دی ہے۔ دفاع، معیشت، ٹیکنالوجی، اور تعلیم کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بھارت نے کبھی بھی اپنی پرانی دوستیاں ترک نہیں کیں، کیونکہ اس کی پالیسی کا مرکز قومی مفاد ہے، نہ کہ کسی بلاک میں شمولیت۔
سابق صدر ٹرمپ کا مطالبہ دراصل ایک پرانی سرد جنگی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس میں دنیا کو یا تو امریکہ کے ساتھ یا اس کے خلاف دیکھا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ عالمی حالات بہت بدل چکے ہیں۔ دنیا اب کثیر القطبی (multi-polar) ہو چکی ہے اور بھارت جیسے ممالک اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے توازن کی راہ پر گامزن ہیں۔
اردو اخبار کی حیثیت سے ہم یہ رائے دیتے ہیں کہ بھارت کو کسی بھی ملک کی خوشنودی کے لیے اپنی تزویراتی خودمختاری سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ ہو یا روس، چین ہو یا یورپی یونین، بھارت کو ہر رشتے کو صرف اپنے قومی مفاد، علاقائی امن، اور عالمی توازن کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔