ماسکو،روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور اماراتی وزیر خارجہ کے درمیان جمعہ کے روز ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط معاہدوں کا اشارہ دیا گیا ہے۔دونوں وزرائے خارجہ نے موجودہ سٹریٹجک شراکت داری کا جائزہ لیا اور مستقبل میں ان تعلقات میں اضافے کے علاوہ تمام شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔امارات کے سرکاری خبر رساں ادارے نے جمعرات کے روز رپورٹ کیا تھا کہ دوطرفہ مذاکرات کے دوران عالمی اور مشرق وسطیٰ کی اہمیت کے امور پر اپنے موقف کا جائزہ لیں گے۔دوسری جانب روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا۔ دونوں وزرائے خارجہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جاری تنازعات کو جامع مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے لیے بات ہو گی تاکہ تمام فریقوں کے جائز اور قانونی مفادات کا تحفظ کیا ہو سکے۔اس سلسلے میں یمن، لبیا اور شام کے امور کے علاوہ عرب اسرائیل امن عمل کے امور پر بھی بات چیت کے امکان کا بتایا گیا تھا۔روسی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ سرگئی لاوروف تیل پیدا کرنے والے اس خلیجی ملک کے دوروزہ دورے پر ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی امارات میں مصروف کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وہ سربانی یاس فورم کے تحت امن اور سلامتی جائیں گے اور ابو ظہبی میں روسی سکول کا بھی دورہ کریں گے۔واضح رہے روسی اور اماراتی وزیر خارجہ کے درمیان یہ اہم ملاقات یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں بھی اہم ہے کہ اس میں روس خصوصی فوجی تعاون کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔اس لیے توقع کی جاتی ہے اس دورے میں ایک اہم حصے کے طور پر گہرے سیاسی مکالمے کا امکان ہو گا۔ جیسا کہ دونوں ملکوں کی طرف سے اعلی سطح کے روابط کو بھی بحال رکھا گیا ہے۔امارات کے وزر خارجہ شیخ عبداللہ نے اس امر کی نشاندہی کی یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک جامع تزویراتی شرکت داری کے حوالےسے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مختلف شعبوں میں تعاون میں اضافے کی بات ہو گی۔خیال رہے دونوں ملکوں کے صدرور شیخ محمد بن زاید النہیان اور ولادی میر پوٹن کے درمیان ملاقات گذشتہ ماہ سینٹ پیٹرز برگ میں ہوئی تھی۔ صدارتی ملاقات کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات میں تیزی سے اضافے اور تعاون کا امکان بڑھا۔روسی صدر نے اس موقع پر امارات کی طرف سے روس اور یوکرین کے درمیان معاملات کے لیے سنجیدہ کوششوں کی تعریف کی تھی۔ صدر امارات نے بھی مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر زور دیا تھا۔