سپریم کورٹ آف انڈیا نے فلم "ادئے پور فائلز” پر پابندی لگانے سے انکار کرتے ہوئے اسے اظہارِ رائے کی آزادی کا معاملہ قرار دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ فلم کو بین کرنے کا مطالبہ قبل از وقت ہے کیونکہ ابھی تک مکمل فلم عدالت کے سامنے نہیں رکھی گئی، اور صرف ٹریلر کی بنیاد پر کوئی حکم صادر کرنا ممکن نہیں۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک میں مذہبی منافرت، نفرت انگیز مواد، اور مخصوص اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی فلموں، بیانات اور سیاسی تقاریر کی بھرمار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ "ادئے پور فائلز” کو ناقدین ایک خاص سیاسی ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہیں، جس کا مقصد معاشرے میں تفریق پیدا کرنا اور ایک خاص طبقے کے خلاف نفرت کو فروغ دینا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ آخر کب تک فن، فلم اور میڈیا کی آڑ میں نفرت انگیزی کو آزادیٔ اظہار کے نام پر تحفظ دیا جاتا رہے گا؟
سپریم کورٹ کا یہ کہنا بجا ہے کہ کسی فلم پر مکمل پابندی عائد کرنے سے قبل اس کا مکمل متن اور اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے، لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ ٹریلر ہی اگر اشتعال انگیز ہو، اور جس کا پیغام واضح طور پر مذہبی یا نسلی تفریق پر مبنی ہو، تو کیا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ کیا آزادیٔ اظہار کی یہ تشریح بھی ہونی چاہئے کہ وہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے، خوف و ہراس پھیلانے یا ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنانے کا ذریعہ بن جائے؟
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ملک میں کئی ایسی فلمیں یا کتب، جو اکثریتی طبقے کی حساسیت کو چیلنج کرتی تھیں، انہیں فوراً یا تو سنسر کر دیا گیا یا ریلیز ہونے سے پہلے ہی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ دوسری طرف، ان فلموں کو نہ صرف عدالتوں سے تحفظ مل رہا ہے بلکہ سیاسی سطح پر بھی انہیں مکمل پشت پناہی حاصل ہے جو اکثریتی جذبات کو بھڑکاتی ہیں اور اقلیتوں کے خلاف ماحول تیار کرتی ہیں۔
عدلیہ کو چاہیئے کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کو ضرور تحفظ دے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ یہ آزادی کسی کی توہین، خوف، یا جانی و مالی نقصان کا ذریعہ نہ بنے۔ورنہ جو صورت حال ہے اس کے مد نظر اگر اقلیتوں اور دلت طبقہ کے لوگوں نے بھی اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر فلمیں اور ڈکیومینٹری بنانی شروع کردی تو پھر ملک میں امن و امان کی صورت حال کیا ہوگی ؟
یہ بات تو اب واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے کہ موجودہ مودی سرکار کو ملک میں امن و امان کی ہولی جلانے سے کوئی گریز نہیں اور اس کی نظر صرف اکثریتی طبقہ کے ووٹ کے زیادہ سے زیادہ حصہ پر قبضہ کرنا ہے ۔لیکن عدالت عالیہ کو تو بہر حال آئینی ادارے کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس کرانا ہوگا کہ ان کے فیصلوں کے دور رس نتائج سے ملک کی جمہوریت کو کتنے خطرے لاحق ہو رہے ہیں ۔
اظہار کی آزادی اسی وقت بامعنی ہے جب وہ سب کے لیے ہو، اور اس میں توازن ہو۔ بصورت دیگر، یہ آزادی طاقتوروں کے لی٘٘٘ے ہتھیار اور کمزوروں کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔”ادئے پور فائلز” جیسے منصوبے صرف فلم نہیں بلکہ سیاسی ہتھیار بن چکے ہیں، جن کے ذریعے انتخابی فائدے کے لیے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ اسے نہ صرف قانونی تقاضوں پر نظر رکھنی ہے بلکہ آئینی اقدار، قومی یکجہتی، اور سماجی ہم آہنگی کا بھی تحفظ کرنا ہے۔
اظہارِ رائے کی آزادی ایک قیمتی حق ہے، مگر اس کے ساتھ سماجی ذمہ داری، مذہبی حساسیت، اور آئینی اقدار کی حرمت بھی لازم ہے۔ عدالت عظمیٰ کو مستقبل میں ایسے معاملات پر فوری مداخلت کے بجائے جامع اور سنجیدہ جائزے کے بعد ہی فیصلے دینے چاہئیں تاکہ کسی بھی فریق کو ناانصافی کا احساس نہ ہو۔ ملک کو نفرت نہیں، ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔