عامر سلیم خان
نئی دہلی ، سماج نیوز سروس:عمر خالد اور خالد سیفی کوآج کڑکڑڈوما کورٹ نے دہلی فسادات 2020 سے متعلق ایک کیس میں بری کر دیا ہے۔تاہم دہلی پولیس نے عمرخالد کی عبوری ضمانت کی درخواست کی سختی سے مخالفت کی اورمتنبہ کیا کہ خالد کی رہائی سماج میں بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔ دراصل عمر خالد نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے اپنی بہن کی شادی کےلئے دو ہفتوں کےلئے عبوری ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے دہلی پولیس سے جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ دہلی پولیس کے اے سی پی ایل ایم نیگی کی طرف سے داخل کردہ جواب میں پولیس نے کہا کہ خالد کی بہن کی 28 دسمبر کو ہونےوالی شادی سے متعلق حقائق کی تصدیق ہو چکی ہے،تاہم یہ سچائی سامنے آنے کے باوجود کی بہن کی شادی ہے،عرضی گزار کو عبوری ضمانت دینے کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے کیونکہ اسے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یواے پی اے) کے تحت بہت سنگین الزامات کا سامنا ہے۔
بتادیں کہ عدالت نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد اور خالد سیفی کو بری کیا ہے۔ عمر خالد اور خالد سیفی کو شمالی دہلی فسادات کے دوران چاند باغ میں پتھراو¿ کے مقدمہ میں پہلے ہی عدالت سے ضمانت مل چکی تھی تاہم یہ دونوں دوسرے کیس میں اب بھی جیل میں ہیں۔ چاند باغ پتھراو¿ کیس میں خالد سیفی اور عمر خالد کا نام بھی جوڑا گیا تھا لیکن ان دونوں کے خلاف کوئی براہ راست ثبوت نہیں ملے۔ اسی بنیاد پر دہلی کی ککڑڈوما عدالت نے انہیں اس معاملہ میں الزامات سے بری کردیا۔دہلی پولیس نے کہاکہ چونکہ خالد کی والدہ ایک بوٹیک چلا رہی ہیں اور ان کے والدویلفیئر پارٹی آف انڈیا نامی سیاسی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں، اس لئے وہ شادی کا بندوبست کرنے کیلئے اہل ہیں اور انتظامات کرنے میں کوئی پریشانی آنے والی نہیں ہے۔ دہلی پولیس نے جواب میں مزید کہا کہ عبوری ضمانت کی مدت کے دوران سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے عمر خالد غلط معلومات پھیلا سکتا ہے ۔
اتنا ہی نہیں بلکہ دہلی پولیس نے کڑکڑڈوما عدالت میں داخل جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر عبوری ضمانت دی جاتی ہے تو ایسے میں سماج میں بگاڑ پیدا ہونے کا امکان ہے اور گواہوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔دراصل عمر خالد کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور انڈین پینل کوڈ کی دفعات کے تحت فروری 2020 کے فسادات کو مبینہ طور پر ماسٹر مائنڈہونے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ دہلی کے اس خوفناک فساد میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں اربوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ بھی اہم ہے کہ جانی ومالی نقصان مسلمانوں کا زیادہ ہوا ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران بڑے پیمانے پرشمال مشرقی دہلی میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ خالد، جسے دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا، جے این یو کے متعلقہ بغاوت کیس میں بھی ملوث ہیں۔