بہار ایک بار پھر سیاسی ہلچل کے مرکز میں ہے۔ ریاست کی فضا میں انتخابی بخار چڑھنے لگا ہے۔ پٹنہ سے سیوان تک، دربھنگہ سے گیا تک، گاؤں کے چبوترے اور شہروں کے چوراہے ایک بار پھر سیاست کے اکھاڑے بن چکے ہیں۔ چائے کی دکانوں پر بحثوں کا شور، منڈیوں میں وعدوں کے قصے، اور میڈیا پر الزامات و جوابی حملوں کی گونج ،سب اس بات کی علامت ہیں کہ بہار ایک بار پھر فیصلے کے دہانے پر کھڑا ہے۔
نیتیش کمار کی سیاست ہمیشہ سے بہار کے منظرنامے کا مرکزی دھاگا رہی ہے۔ وہ شخص جو کبھی لالو یادو کے ساتھ کھڑا تھا، پھر بی جے پی کے ساتھ گیا، پھر اس کے خلاف ہوا، اور اب دوبارہ اسی کے پہلو میں بیٹھا ہے۔ ان کا اس طرح مسلسل سیاسی سفرمحض اقتدار کی سیاست نہیں بلکہ بہار کے مزاج کی بھی عکاسی کرتا ہے.ایک ایسی زمین جو ہمیشہ سمجھوتے، مصلحت اور موقع پرستی کے بیچ جھولتی رہی ہے۔
بی جے پی کے ساتھ ان کا نیا عہدِ وفاداری دراصل پرانی کمزوریوں کا تسلسل بھی ہے۔ نیتیش جانتے ہیں کہ ان کے بغیر بہار میں بی جے پی کا زمینی اثر کمزور پڑ جاتا ہے، اور بی جے پی بھی جانتی ہے کہ نیتیش کے بغیر اقتدار کا راستہ سیدھا نہیں۔ یہی باہمی مجبوری اس اتحاد کو بظاہر مستحکم مگر درونِ خانہ غیر یقینی بناتی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی کہانی بھی کچھ کم کمزور نہیں۔ آر جے ڈی (ریاستی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی)، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں اتحاد کے نام پر اکٹھی تو ہیں، مگر دلوں کے فاصلے اب بھی برقرار ہیں۔
تیجسوی یادو، جو اپنی نسل کے سب سے زیادہ پرجوش سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، اب ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں انہیں نہ صرف بی جے پی اور نیتیش کے اتحاد کا سامنا ہے بلکہ اپنی پارٹی کے اندرونی کھینچا تانی سے بھی نمٹنا ہے۔انہوں نے حال ہی میں اعلان کیا کہ اگر INDIA بلاک اقتدار میں آیا تو “ہر گھر سے ایک شخص کو سرکاری نوکری” دی جائے گی۔ یہ وعدہ عوامی سطح پر پرکشش ضرور ہے، مگر عملی طور پر اس کے نفاذ پر بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ بہار جیسی ریاست، جہاں ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ پہلے ہی تنخواہوں، پنشن اور سبسڈی پر خرچ ہوتا ہے، وہاں اتنے بڑے وعدے حقیقت کے بجائے نعرے زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔اس بار بی جے پی نے اپنی امیدواروں کی فہرست میں غیر متوقع تبدیلیاں کی ہیں۔ 11 موجودہ ایم ایل ایز کو ٹکٹ نہ دینا اور نئے چہروں کو موقع دینا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی نوجوان قیادت اور ذات پات کے نئے توازن کو آزمانا چاہتی ہے۔اسی طرح لوک گلوکار میتھلی ٹھاکر اور آر جے ڈی کے ایک ایم ایل اے کا بی جے پی میں شامل ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بی جے پی عوامی مقبولیت اور برادری کی سیاست، دونوں کو ایک ساتھ چلانا چاہتی ہے۔
یہ تبدیلیاں اگرچہ نیا سیاسی جوش پیدا کر رہی ہیں، مگر یہ سوال بھی اٹھاتی ہیں کہ کیا نظریے کا کوئی وجود باقی بچا ہے یا اب سیاست مکمل طور پر اقتدار کے گرد گھومنے لگی ہے۔
بہار کے منظرنامے میں ایک نئی لہر نے بھی جنم لیا ہے اور وہ ہے پرشانت کشور کی "جن سُراج” تحریک۔
پہلے وہ انتخابی حکمتِ عملی کے ماہر کے طور پر جانے جاتے تھے، مگر اب وہ ایک سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کی تحریک بہار میں عوامی شرکت، دیہی خود مختاری اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کے نعرے پر مبنی ہے۔پرشانت کشور نے کہا ہے کہ “بہار میں سیاست بدلنے کے لیے عوام کو صرف ووٹ نہیں دیناہے بلکہ سوچنے کی ضرورت ہے۔”
یہ بات جتنی درست لگتی ہے، اتنی ہی مشکل بھی ہے، کیونکہ بہار کی سیاست گزشتہ کئی دہائیوں سے ذات، مذہب اور خطے کے گرد گھومتی رہی ہے۔جن سُراج اگر واقعی کوئی تیسرا راستہ کھول پاتا ہے تو یہ بہار کی سیاست کے لیے انقلاب سے کم نہیں ہوگا ورنہ وہی ہوگا جو اکثر ہوتا ہے: نظریے کا اختتام اور اقتدار کا تسلسل۔این ڈی اے نے حالیہ اعلان میں بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان 101–101 سیٹوں کی تقسیم کا اعلان کیا ہے، جبکہ چھوٹی پارٹیوں کو محدود نشستیں دی گئی ہیں۔ یہ سمجھوتہ بظاہر توازن کا مظہر لگتا ہے مگر درحقیقت یہ “برابری کی مجبوری” ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ نیتیش کمار اس کے سہارے اقتدار میں رہیں، مگر ان کے اثر کو محدود رکھا جائے۔ نیتیش چاہتے ہیں کہ بی جے پی ان کے بغیر کمزور رہے تاکہ ان کی سیاسی ضرورت برقرار رہے۔
یہی وہ باریک سیاست ہے جو بہار کو ہمیشہ غیر یقینی صورت حال میں رکھتی ہے. اور کوئی بھی اقتدار مکمل طور پر پُرامن و مستحکم نہیں رہتا۔
انتخابی جلسوں میں اب ترقی، روزگار، تعلیم، اور مہنگائی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہار اب بھی ملک کی سب سے پسماندہ ریاستوں میں شامل ہے۔
فی کس آمدنی، تعلیمی معیار، صحت کی سہولتیں ، سب میں بہار پیچھے ہے۔ایسے میں ہر انتخاب سے پہلے نئے وعدے کیے جاتے ہیں، مگر زمین پر ان کا اثر کم دکھائی دیتا ہے۔
مہاگٹھ بندھن کا “ایک گھر، ایک نوکری” ہو یا این ڈی اے کا “ڈبل انجن ترقی ماڈل”، عوام اب ان دعووں سے تھک چکے ہیں۔ وہ ترقی کی وہ شکل چاہتے ہیں جو صرف ریلیوں اور اشتہارات تک محدود نہ ہو بلکہ اسکول، اسپتال اور سڑکوں تک پہنچے۔
چند روز قبل سیوان ضلع میں غیر قانونی ہتھیاروں کی برآمدگی اور پٹنہ کے اسپتال میں قیدی کے قتل جیسے واقعات نے انتخابی ماحول پر سایہ ڈال دیا ہے۔
یہ وہ بہار ہے جو کبھی “لا اینڈ آرڈر” کے لیے بدنام تھی، اور نیتیش کمار نے اسی عنوان پر خود کو “سُشاسن بابو” کہلوایا۔ لیکن اگر یہی امن و امان انتخاب کے دوران سوال بن جائے تو یہ ان کی سب سے بڑی کمزوری بن سکتی ہے۔ عوام اب قانون سے زیادہ انصاف کی تلاش میں ہیں، کیونکہ انصاف نہ صرف سیاسی نظام بلکہ معاشرتی اعتماد کی بنیاد ہے. بہار کی سیاست میں ذات پات ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔کسی زمانے میں لالو یادو نے یادو–مسلم اتحاد کے سہارے دہائیوں تک اقتدار سنبھالا، پھر نیتیش کمار نے کرمی–کوئری اور ایس سی برادریوں کے توازن سے اپنا راستہ بنایا، اور اب بی جے پی برہمن، بنیا اور او بی سی کے نئے امتزاج کے ساتھ میدان میں ہے۔اور یہی طبقاتی سیاست بہار کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ جب ووٹ ذات کی بنیاد پر پڑتا ہے تو کارکردگی اور شفافیت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔بہار میں اس وقت میڈیا کی بڑی تعداد انتخابی بیانیہ تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ٹی وی چینلز، یوٹیوب چینلز، اور مقامی اخبارات سب کسی نہ کسی خیمے سے وابستہ دکھائی دیتے ہیں۔عوامی رائے کو گمراہ کرنے یا کسی خاص پارٹی کے حق میں ماحول بنانے کی کوشش اب کھلم کھلا ہوتی ہے۔ایسے میں آزاد صحافت کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے، کیونکہ جمہوریت میں رائے دہندہ اگر سچائی سے محروم ہو جائے تو اس کا ووٹ بھی بامعنی نہیں رہتا۔آخرکار بہار کی سیاست کا اصل امتحان سیاستدانوں کا نہیں بلکہ عوام کا ہے۔ یہ وہ عوام ہیں جنہوں نے “جنگل راج” سے نکل کر “سشاسن” کو موقع دیا، پھر “ڈبل انجن” کو آزمایا، اور اب شاید “نئے انقلاب” کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بہار کے ووٹر اب بھی ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر ووٹ دیں گے؟ کیا وہ ان پارٹیوں سے سوال کریں گے جنہوں نے دہائیوں سے وعدے تو کیے، مگر خواب کبھی حقیقت نہ بنےـ بہار کی سیاست آج ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف پرانی روایات، دوسری طرف نئی امیدیں۔
ایک طرف اقتدار کی سیاست، دوسری طرف عوامی شراکت کا خواب۔اگر اس بار عوام نے عقل و شعور سے فیصلہ کیا، تو بہار صرف ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک مثال بن سکتی ہے۔
لیکن اگر وہی پرانے کھیل، پرانے وعدے، اور پرانے چہرے جیت گئے، تو شاید بہار ایک بار پھر اسی دائرے میں گھومتا رہے گا
جہاں سیاست جیتتی ہے، مگر عوام ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔