جکارتہ، : انڈونیشیا کی پارلیمنٹ نے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت غیرشادی شدہ افراد پر جنسی تعلقات قائم کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں ایک سال قید کی سزا ہوگی۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سیاحت اور سرمایہ کاری متاثر ہونے کے خطرے کے باوجود غیر شادی شدہ جوڑوں کے تعلقات پر بھی پابندی عائد کرنے کا قانون بنایا گیا اور نیا فوجداری ضابطے کا اطلاق انڈونیشیا کے شہریوں کے علاوہ غیر ملکیوں پر بھی لاگو ہوگا۔رپورٹ کے مطابق نئے ضابطے میں صدر اور ریاستی اداروں کی تضحیک، ریاست کے نظریات سے مختلف تبصرے پھیلانے اور مظاہروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کی پارلیمنٹ میں یہ قانون تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کے بعد منظور کیا گیا ہے ۔تاہم یہ قانون 3 سال تک لاگو نہیں ہوگا، اس دوران عمل درآمد کیلئے قواعد و ضوابط مرتب کیے جائیں گے۔ اس وقت انڈونیشیا میں شادی شدہ افراد کا دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر پابندی ہے تاہم شادی سے قبل جنسی تعلقات پر پابندی نہیں ہے ۔انڈونیشیا کی سیاحت بورڈ کے نائب سربراہ مولانا یوسران نے بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب معیشت اور سیاحت عالمی وبا کے بعد بحال ہونا شروع ہوئی ہے ، اس کا منفی اثر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں انتہائی افسوس ہے کہ حکومت نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، ہم نے پہلے ہی اپنے تحفظات سے وزارت سیاحت کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس قانون کے اثرات کتنے نقصان دہ ہوں گے۔ٹورزم ایسوسی ایشن نے پہلے بتایا تھا کہ جو غیر ملکی بالی میں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں، ان کی تعداد کورونا کی وبا سے قبل کی سطح پر 2025 میں پہنچنے کی امید ہے جو 60 لاکھ تھی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ انڈونیشیا نام نہاد ’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘ (ایسے افراد جو خانہ بدوشوں کی طرح رہتے اور انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ کے ذریعے کام کرتے ہیں) کو ویزا میں نرمی کی پیش کش کرکے اپنے ملک کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انڈونیشیا میں امریکہ کے سفیر سنگ کم نے سرمایہ کاری کانفرنس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خبر کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آسکتی ہے اور اس کے علاوہ سیاح اور مسافر بھی جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں کم آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی نوعیت کے فیصلوں کو جرم بنانے کی وجہ سے کئی کمپنیاں ڈونیشیا میں سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں سوچیں گی۔ انڈونیشیا کی وزارت انصاف کے ترجمان البرٹ ایریز نے بتایا کہ اخلاقیات کے حوالے سے نئے قوانین والدین، میاں یا بیوی یا بچے کی جانب سے رپورٹ کرنے تک محدود کر دیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد انڈونیشیا کی قدروں اور شادیوں کی بطور ادارہ حفاظت کرنا ہے ، اسی کے ساتھ کمیونٹی کی رازداری کی حفاظت کے پیش نظر کسی تیسرے فریق کی جانب سے معاملے کو رپورٹ کرنے کی نفی کی گئی ہے تاکہ وہ اخلاقیات کو خود سے جج نہیں کریں۔روزنامہ اخبار کورن ٹیمپو نے رپورٹ میں بتایا کہ اس ضابطے کی سوچ آمرانہ ہے ، جکارتہ پوسٹ نے کہا کہ انہیں اپنی درخواستوں کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔بل کی مخالفت کرنے والوں نے آرٹیکلز میں لکھا کہ یہ قانون آزادی اظہار کو روکے گا، 1998 میں آمر حکمران سوہیترو کے زوال کے بعد سے جمہوری آزادی یقینی بنانے کے حوالے سے بڑا دھچکا ہے۔
انڈونیشین لیگل ایڈ انسٹیٹیوٹ کے وکیل سٹرا ریفرینڈم نے لکھا کہ یہ دھچکا نہیں بلکہ انڈونیشیا کی جمہوریت کی موت ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل قطعی طور پر جمہوری نہیں تھا۔انڈونیشیا کے وزیر برائے قانون و انسانی حقوق یسونا لاولی نے تنقید کے ردعمل میں کہا کہ مختلف کلچر اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے ملک میں ایسا فوجداری ضابطہ بنانا آسان نہیں ہے جو تمام لوگوں کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچائے۔