لکھنؤ:31اکتوبر /سماج نیوز سروس :سزا سنائے جانے کے بعد سلاخوں کے پیچھے بند ایس پی کے سینئر لیڈر اعظم خان کےلئے ایک اور دلدوز خبر آرہی ہے ۔ منگل کو سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں جوہر ٹرسٹ سے زمین واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔محکمہ تعلیم کی یہ 41181 مربع فٹ زمین جوہر ٹرسٹ کو 30 سال کے لیز پر 100 روپے سالانہ کرایہ پر دی گئی تھی۔لیکن اب کابینہ اجلاس میں محکمہ تعلیم کو زمین واپس دینے کی تجویز منظور کر لی گئی۔جوہر ٹرسٹ کو لیز پر زمین دینے کا فیصلہ سماج وادی پارٹی کے دور حکومت میں لیا گیا تھا۔ اعظم پر قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمین حاصل کرنے کا الزام ہے۔ منگل کو یوگی کابینہ کی میٹنگ کے بعد وزیر خزانہ سریش کھنہ نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے زمین واپس لیے جانے کی اطلاع دی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہونے والے کابینہ اجلاس میں 21 میں سے 20 تجاویز کو منظوری دی گئی ہے۔یہاں اعظم خان کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عبداللہ اعظم کے دو بیٹےبرتھ سرٹیفکیٹ کیس میں بیوی اور بیٹے کے ساتھ سات سال قید کی سزا کے بعداعظم اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ یہاں جوہر ٹرسٹ میں بے ضابطگیاںان کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف معروف ٹھیکیدارانکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے بھی اعظم خان کے فرحت علی کے ساتھ تعلقات پر اپنی گرفت سخت کر لی۔اسے سخت کر دیا ہے۔فرحت علی خان اور اعظم خان کے درمیان کیا تعلق ہے، کتنی لین دین یا چندہ دیا گیا اور اعظم کو کروڑوں کے کتنے ٹھیکے ملے… انکم ٹیکس ایسے تمام انکشافات کی توقع کر رہا ہے۔ جس کی بنیاد فرحت کے گھر سے برآمد ہونے والی ڈائری، پین ڈرائیو، ہارڈ ڈسک اور موبائل کی تفصیلات ہوں گی۔ انکم ٹیکس افسران دہلی کے آئی ٹی ماہرین سے ڈیٹا ریکوری کروا رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ جوہر یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے جوہر ٹرسٹ کو بڑا عطیہ دیا گیا تھا۔تھا.انکم ٹیکس کو شبہ ہے کہ اس چندے میں ٹیکس چوری کا بڑا کھیل ہوا ہے۔ انکم ٹیکس افسران اس معاملے سے متعلق لنکس جوڑ رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں پہلے اعظم خان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، جوہر یونیورسٹی پر چھاپہ مارا گیا اور 27 اکتوبر کو اعظم خان کے قریبی ٹھیکیداروں کے گھروں پر چھاپہ مارا گیا۔ اس دوران گایتری پورم کے رہنے والے بڑے ٹھیکیدار فرحت خان کا نام بھی سامنے آیا۔جس پر انکم ٹیکس کی ٹیم نے اس سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی۔ انکم ٹیکس حکام کو 2084506 روپے مالیت کے زیورات اور 28 ہزار روپے کی نقدی ملی تھی جس کی جانچ پڑتال کے بعد فرحت علی خان کو ان کے حوالے کر دیا گیا تاہم انکم ٹیکس کی ٹیم نے ان کی جگہ سے دو ڈائریاں، ایک پین ڈرائیو، ایک موبائل فون برآمد کر لیا۔ ہارڈ ڈسک لے لی۔ انکم ٹیکس کو اس سے بڑا سراغ ملنے کی امید ہے۔ چھاپہ مار کارروائی 34 گھنٹے جاری رہی۔رام پور کے ٹھیکیداروں پر انکم ٹیکس کا چھاپہ تقریباً 34 گھنٹے تک جاری رہا۔رام پور کے ٹھیکیداروں پر انکم ٹیکس کا چھاپہ تقریباً 34 گھنٹے تک جاری رہا۔ اگر ذرائع پر یقین کیا جائے تو اس کے پیچھے تین بنیادی وجوہات ہیں۔ جس پر انکم ٹیکس حکام کی جانب سے سوالات کے جوابات دیے گئے۔ دراصل ایس پی حکومت کے دوران جوہر یونیورسٹی کی تعمیر کے دوران جوہر ٹرسٹ کو چندہ دیا گیا تھا۔ کئی بڑے ٹھیکیداروں نے ٹرسٹ کو بھاری عطیات دیے تھے۔ جوہر یونیورسٹی میں بہت سے ٹھیکیدار ہیں جنہوں نے سول کنسٹرکشن کا کام کیا۔ کچھ ٹھیکیدار ایسے ہیں جنہوں نے سرکاری دستاویزات کے مطابق سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ کہیں اور لیا لیکن حقیقت میں تعمیراتی کام جوہر یونیورسٹی میں ہوا۔ اس لیے ٹھیکیدار انکم ٹیکس کے ریڈار پر آگئے اور چھاپے مارے۔سماج وادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری محمد اعظم خان سے متعلق جوہر یونیورسٹی کے لیے کسانوں کی زمین پر قبضے کے چار معاملوں میں 16-17 کو ہونے والی زمین پر قبضہ کیس کی سماعت پیر کو نہیں ہو سکی۔ جوہر یونیورسٹی کے لیے کسانوں کی اراضی کے حصول کے چار مقدمات میں پیر کو بھی سماعت نہیں ہو سکی۔ عدالت نے اگلی تاریخ 16 اور 17 نومبر مقرر کی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ عالیہ گنج کے کسانوں نے ایس پی لیڈر اعظم خان سمیت کئی لوگوں کے خلاف عظیم نگر پولس تھانہ میں 27 مقدمات درج کرائے تھے کہ انہوں نے اپنی زمین کو زبردستی فروخت کے ذریعے ہتھیا لیا تھا۔ یہ تمام معاملات زیر غور ہیں۔ وکلا کی جانب سے عدالتی کام سے پرہیز کے باعث پیر کو کیس کی سماعت نہ ہو سکی۔ دوسری جانب یتیم خانہ کالونی خالی کرانے کے چار مقدمات کی سماعت اب سات نومبر کو ہوگی۔فرحت نے کہا- ہمارا ریکارڈ برقرار ہے۔ٹھیکیدار فرحت علی خان نے بتایا کہ انکم ٹیکس حکام نے ان سے سوالات کیے کہ انہوں نے جوہر ٹرسٹ کو کتنا عطیہ دیا ہے اور یونیورسٹی میں کتنا کام ہوا ہے۔ ہم نے بتایا کہ کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔ تمام ٹھیکے آن لائن ٹینڈر کے ذریعے دیئے جاتے ہیں۔ کچھ بھی غلط نہیں ہوا ہے۔ جس پر اس نے ریکارڈ تلاش کیا۔ چونکہ پرانا ریکارڈ ختم ہو گیا ہے اس لیے شاید کچھ گم ہو گیا ہے۔ تاہم ہم نے بتایا کہ ہمارا کام جو بھی ہے، سب کچھ نمبر ایک ہے۔ ہر چیز کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد انکم ٹیکس ٹیم کچھ دستاویزات اپنے ساتھ لے گئی ہے۔

کسی بھی تعلیمی ادارے کو قائم کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔تعلیمی ادارے موجودہ نسل ہی نہیں آنے والی نسلوں کو بھی فیض پنہچانے کا کام کرتی ہیں ۔ایسے میں یہ خبر انتہائی افسوسناک ہے کہ رامپور میں اعظم خاں کے ذریعہ قائم کی گئی جوہر یونیورسٹی کی زمین کے لیز کو یو پی کی حکومت نے واپس لے لی ہے ۔ سرکار کے اس عمل کو قابل مذمت اور بد نیتی پر مبنی عمل کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
پروفیسر صادق
سابق صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورتیو پی کابینہ کا محمد علی جوہر ٹرسٹ رامپور سے الاٹ کی گئی زمین واپس لینے کا فیصلہ افسوسناک اور مسلم بچوں کو تعلیم سےمحروم کرنے کے نفرت انگیز ایجنڈے کا حصہ ہے.یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اتر پردیش سرکار اپنی ریاست میں مسلمانوں کو نہ تو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہے اور نہ ہی خوشحال ۔مدارس اسلامیہ سے لے کر مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں کے تئیں اس کے رویہ کو دیکھ کر حیرانی ہوتی
ہے کہ آخر سرکار مسلمانوں کو کس تاریک غار میں دھکیلنا چاہتی ہے ۔یہ فیصلہ اعظم خان کے مسلمانوں کو تعلیمیمیدان میں بااختیار بنانےکی مہم کےدروازے بند کرنے کا سرکاری آرڈر ہے۔
نوید حامد
حکومت یو پی کی جانب سے جوہر یونیورسٹی رامپور کی سرکاری زمین کی لیز کا رد کیا جانا اقلیتوں کی تعلیم کے بنیادی حق کا انکار کرنے کے مترادف ہے ۔ اعظم خان کے ساتھ ذاتی سیاسی دشمنی کے شاخسانہ کے طور پر پوری امت سے انتقام لینے کی ذموم حرکت ہے جو یہ۔ بات کرنے کے لئے کافی ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور ایک ہاتھ میں قران اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر دینے کا دعوی انتخابی جملے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور ایک جھوٹے نعرے کے سوا کچھ نہیں ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اترپردیش حکومت اپنے کابینی فیصلے کو فی الفور واپس لے بصورت دیگر مسلم اقلیتی طبقے کی اس یونیورسٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملت کے ہر شخص پر واجب ہوگا کہ اتر پردیش حکومت کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرے اور زمین واگذار رواکے یونیورسٹی کے تحفظ کو یقینی بنائیں
ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
صدر :مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا
سیاسی دشمنی اپنی جگہ ہے لیکن تعلیمی ادارے کی اپنی اہمیت ہے ۔یہ خبر انتہائی افسوسناک ہے کہ یوپی حکومت نے رامپور میں قائم جوہر یونیورسٹی کی زمین کے لیز کو ریجیکٹ کر دیا ہے جسے سابقہ سماجوادی سرکارنے جوہر ٹرسٹ کو تیس
سال کے لئے دیا تھا ۔ایک ایسے وقت میں جب ملک میں مسلمانوں کو تعلیم سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔پورے ملک میں دانشگاہوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے ۔لیکن اتر پردیش کی یوگی سرکار ایک بنی بنائی یونیورسٹی کو بند کرنے کی سازش کر رہی ہے ۔جسے کسی بھی زاویہ سے حق بجانب نہیں قرار دیا جا سکتا ۔
ایڈووکیٹ محمد فیروز انصاری
صدر :آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت












