رام پور،صولت پبلک لائبریری میںعلاّمہ اقبال کے یوم پیدائش پر سمپوزیم بعنوان اردو کا مستقبل عصر حاضر کے تناظر میں صدرصولت پبلک لائبریری ڈاکٹر محمود علی خاں کی صدارت میںمنعقدہوا۔مہمان خصوصی کے طورپرڈاکٹر حسن احمد نظامی موجودرہے۔جب کہ شکسک شری ڈاکٹر شریف احمد قریشی نے روایتی کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آزادی وطن کے بعد جمہوری نظام کے تحت مختلف نظریات کے قائدین کے برسراقتدار رہنے کے سبب ترجیہات میں بھی تبدیلیاں آئی اور زندگی کے ہر شعبے پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ ایسا وقت بھی آیا جب مشترکہ تہذیب کی علامت اردو زبان کو مسلمانوں سے وابستہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ اسے مسلمان بنانے کی بھی مسلسل سازشیں کی جارہی ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں غیر مسلم ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے اردو زبان کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسے ناخوشگوار حالات میں اردو کے صحافیوں، اردو رسائل و جرائد کے مدیرں اور نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ اخبارات و رسائل کے ذریعہ اردو کے قومی تہذیبی اور سیکولر مزاج کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ڈاکٹر ظہیر رحمتی نے کہا کہ اردو زبان کے اہم ادیب اور شاعر گذرے ہیں لیکن شاعر مشرق کے یوم پیدائش کو یوم اردو سے منسوب کرنا ایک بڑی بحث کا موضوع ہے۔اقبال کی زندگی کو سر سید کے فکری چراغ نے روشن کیا۔ علامہ اقبال بھی سر سید کے مغربی تہذیب و جدید فکر کے نظریات سے متاثر تھے۔ ریسرچ اسکالرڈاکٹر شازیہ زرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی بھی ملک کی زبان اُس کی پہچان ہوتی ہے اور اُس کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے ہر ملک کی زبان اُس ملک کے معاشرتی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے بارے میں بتاتی ہے اور یہ زبان ہی ہے جو ملک کے تمام لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ اُردو زبان درحقیقت مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے اسی لئے اس کو لشکری زبان کہاجاتاہے۔ اس میں اکثر عربی، فارسی اوردیگر زبانوں کیالفاظ پائے جاتے ہیں۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس ملک میں ہر زبان کو اہمیت دی جائے۔ جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں انہوں نے ہمیشہ اپنی مادری زبان میں ہی ترقی کی ہے۔کہا کہ ہماری زبان اُردو جس کے فروغ کے لئے سر سید احمد خان نے دن رات محنت کی اور جس زبان نے ہمیں مرزا غالب اور علامہ اقبال جیسے عظیم شعرا دیئے وہ ہی زبان آج اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہے۔ آج ہم نے اپنی زبان کو ترک کردیا ہے۔ اردو زبان کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے رسم الخط کی بقا کے ساتھ ہی اپنے گھروں پر اردو زبان کا استعمال عام کریں۔ ڈاکٹر الف ناظم نے کہا کہ کسی بھی علاقے کی تہذیب و ثقافت زبانوں کو پیدا کرتی ہے۔ اردو ہماری مادری زبان ہے۔ اس لئے ہم پر اس کے تحفظ اور بقا کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں اردو کو عام نہیں کریں گے اس کا تحفظ ممکن نہیں۔ نظامت ڈاکٹرسمیع الدین خاں شاداب نے کی۔پروفیسر ارشد رضوی، بابر خاں، پرویز نظامی ، پروفیسر ارم نعیم نے بھی اپنے مقالات پیش کئے۔اس موقع پر صدر لائبریری ڈاکٹر محمود علی خاں اور سیکریٹری مسلم غازی نے سبھی مقالہ نگاروں کو مومینٹو اور دوشالہ اعزاز پیش کیا۔ آخر میں تقریب کے کنوینرسید جعفر شاہ نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ عتیق جیلانی سالک، ، مسلم معین قریشی،تنویر احمد وصفی،اظہر عنایتی، آل احمد خاں سرور ، ذیشان محمد خاں مراد، سید مظفر الحق، ڈاکٹر مہدی حسن، سید ظفر علی ایڈووکیٹ، رضوان احمد صدیقی، سید سروش سعید، ایڈووکیٹ عبد الصبور خاں، حسان آفندی،خالد حسن خاں، نعمان خاں غازی، منظر واحدی،شعیب یونس، فیضان خاں، عرشی خاں،شاداب قدیری، مظہر معین خاں، رضوان خاں، عرفان خاں وغیرہ موجود تھے۔(۴)