شعیب رضا فاطمی
نئی دہلی ، سماج نیوز سروس:تنوع سے بھر پور ملک بھارت کی یہ بھی ایک خوبصورتی ہی ہے کہ جہاں ایک طرف دہلی کے قریب ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلی اردو زبان پڑھنے والوں کو کٹھ ملا قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف مرکزی حکومت کی نگرانی میں قائم ملک کے سب سے بڑے اردو ادارے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وزیر اعظم نریندر مودی کے کلیدی نعرے "وکست بھارت کا وژن ،اردو زبان کا مشن "کے عنوان اور یوم مادری زبان کی مناسبت سے دارالسلطنت دہلی میں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کر کے کروڑوں شائقین اردو کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے ۔20فروری کی خوشگوار صبح کو جہاں تاریخی رام لیلا میدان میں دہلی کی نئی وزیر اعلی حلف لے رہی تھیں وہیں تقریبا اسی وقت انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال اردو اور دیگر زبانوں کے صحافیوں کے درمیان بیٹھ کر انہیں 21سے 23تاریخ تک چلنے والے عالمی اردو کانفرنس کی غرض و غایت نیز تین روزہ پروگرام کی تفصیلات سمجھاتے ہوئے اردو کی عالمی مقبولیت کے شواہد پیش کر رہے تھے ۔ساتھ ہی صحافیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش بھی کر رہے تھے کہ نریندر مودی کے وکست بھارت کے مشن میں اردو زبان کے فروغ کا مشن کس طرح مدغم ہوکر عالمی سطح پر اردو داں حضرات کو متاثر کر رہا ہے ۔ڈاکٹر شمس اقبال نے اس کانفرنس کے انفراد کو نشان زد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس روایتی مقالہ بازی کی جگہ مکالمہ کی روایت کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہے اور اس کے لئے ہم نے ماہرین موضوعات کو دعوت دی ہے کہ وہ شرکائے بحث کے ساتھ براہ راست گفتگو کر کے لائحہ عمل کی ٹھوس زمین تیار کریں تاکہ قومی کونسل ان نشان زد نقوش پر اپنے عملی اقدام کی بنیاد رکھ سکے ۔ساتھ ہی حکومت کو ایک واضح بلیو پرنٹ بھی فراہم کرے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی زبان اردو جس کی شیرینی نے ملک کی سرحدوں کو عبور کر کے عالمی سطح پر لوگوں کو مسحور کر رکھا ہے ۔اس گفتگو کے دوران ڈاکٹر شمس اقبال نے نہایت عالمانہ انداز میں کانفرنس اور سیمینار کے درمیان موجود فرق کی بھی نشاندہی کی اور مختلف اجلاس کے موضوعات کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ کونسل کی جانب سے ماضی میں بھی عالمی اردو کانفرنسیں ہوتی رہی ہیں،البتہ درمیان میں کورونا اور بعض دِگر اسباب کی بناپر یہ سلسلہ رک گیا تھا،اب تقریباًچھ سال کے وقفے سے ہم یہ کانفرنس کر رہے ہیں، جس کا ہم نے بالکل غیر روایتی انداز کا خاکہ بنایا ہے اور اردوکے ادبی مسائل کے ساتھ عصری و قومی ضروریات اور تقاضوں کو بھی اس کے تھیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ 21فروری کو شروع ہونے والی یہ کانفرنس عالمی یومِ مادری زبان کا جشن بھی ہے اور اس کا مرکزی موضوع حکومتِ ہند کے منصوبے‘وکست بھارت47’ پر مبنی ہے،جس میں پڑھے جانے والے مقالات اور مباحثوں کے ذریعے جہاں ہم موجودہ دور میں اردو تعلیم اور اردو زبان و ادب کے فروغ کی مختلف جہتوں پر غور و فکر کریں گے وہیں 2047تک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر و تشکیل میں اس ملک کی دیگر زبانوں کے ساتھ اردو کے متوقع کردار پر بھی صحت مند ڈسکورس ہوگا۔انھوں نے اس پر زور دیا کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں سماج کے دوسرے طبقات کے ساتھ ادیبوں اور تخلیق کاروں کی شمولیت بھی اہم ہوتی ہے،ایسے میں ہمیں اجتماعی طورپر غور کرنا چاہیے کہ ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں ہماری زبان کے ادیب و تخلیق کار کس طرح اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تین دنوں تک چلنے والی اس کانفرنس میں افتتاحی و اختتامی پروگراموں کے علاوہ سات تکنیکی سیشنز ہوں گے،جن میں اردو ذریعۂ تعلیم،نئی نسل میں مختلف علوم کی ترویج،موجودہ تعلیمی نظام میں اردو کی صورت حال، اردو کے کاز کو آگے بڑھانے کے لیے انفوٹنمنٹ وسائل اور آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کے استعمال،اردوتخلیقات میں ہندوستانی ثقافت وسماجیات کی عکاسی اور بیرون ملک مقیم اردو آبادی کے ساتھ ہموار رابطے کی تشکیل جیسے موضوعات پر مقالات کی پیش کش اور مذاکرے ہوں گے۔انھوں نے بتایا کہ چوں کہ اردو زبان کا ایک دلکش اور گنگاجمنی ثقافتی پس منظر بھی ہے جس کی عکاسی مشاعروں،قوالی اور کلاسیکی رقص و موسیقی وغیرہ کے ذریعے ہوتی ہے،اس لیے کانفرنس کے تینوں دن ہم محبانِ اردو کی ذہنی تفریح کے لیے ثقافتی پروگراموں کا بھی اہتمام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ اس کانفرنس میں جہاں ہندوستان کے تمام اردو علاقوں اور متوازن صنفی نمائندگی پر توجہ دی گئی ہے،وہیں کناڈا،آ ذربائیجان، ازبیکستان، مصر، نیپال، قطر،یو اے ای سے بھی متعدد اردودانشوران آن لائن و آف لائن شرکت کر رہے ہیں۔پریس کانفرنس میں اردو ،ہندی و انگریزی کے 30سے زائد اخباری نمائندگان ومدیران موجود تھے۔اس موقعے پر ڈاکٹر شمس اقبال نے عالمی اردو کانفرنس کے تعلق سے صحافیوں کے مختلف سوالوں کے جوابات بھی دیے اور کہا کہ یہ کانفرنس اردو کی مجموعی ترقی کے ساتھ وکست بھارت کی تعمیر کا روڈ میپ تیار کرنے کے حوالے سے بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ انہوں نے مختلف صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ثقافتی پروگرام کی تفصیل بھی بتائی جس میں مشاعرہ ،صوفیانہ گائیکی ،کتھک رقص وغیرہ بھی شامل پروگرام ہیں جو الگ الگ دنوں میں منعقد کئے جائینگے اور جن کی اپنی ثقافتی بنیاد بھی اردو کی تہذیبی روایت کا حصہ ہے ۔کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے اردو کے ایک بالغ نظر اور سنجیدہ اسکالر کی حیثیت سے اس تین روزہ کانفرنس کے خدوخال میں جو رنگ بھرے ہیں اس کی کامیابی یقینی ہے ۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ڈائریکٹر موصوف کا تعلق یونیورسٹی کے مخصوص اور محدود فضا سے باہر ملک کے مایہ ناز ادارے نیشنل بک ٹرسٹ سے رہا ہے جہاں ادب پڑھایا نہیں جاتا بلکہ پڑھانے کے لئے مواد کی تیاری کی جاتی ہے ۔اس کانفرنس کا یہ حسن بھی ہے کہ یہاں مباحثہ اور گفتگو میں شامل افراد کی کثیر تعداد یونیورسٹی کے باہر کی اردو دنیا سے ہے جہاں وہ عملی طور پر اردو کی باغبانی کرتے ہیں ۔یوں تو اس کانفرنس کا افتتاح 21فروری کو ہوگا لیکن اس کے پہلے دن ہونے والے پریس کا نفرنس سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں کہ یہ ساتواں عالمی اردو کانفرنس ایک کامیاب کانفرنس ثابت ہوگا ۔