غزہ:شمالی غزہ میں التابعین سکول پر خونریز حملے جس میں کم از کم 90 فلسطینی ہلاک ہوئے کے بعد مقامی صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے اتوار کو جنوبی غزہ کے الجلا محلے سے مزید مکینوں کو نکالنے کا حکم دیا ہے۔جبری انخلاء کے تازہ ترین احکامات میں غزہ کی پٹی کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس کے علاقے شامل ہیں، جو اس سال کے شروع میں ایک فضائی اور زمینی حملے کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوئے تھے۔سینکڑوں خاندانوں نے اتوار کو اپنے گھر اور پناہ گاہیں چھوڑ دیں، اپنا سامان ہاتھوں پر اٹھایا اور نامعلوم پناہ گاہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
گذشتہ جون میں اپنے تین بچوں کے ہمراہ خان یونس لوٹنے والی تین بچوں کی ماں امل ابو یحییٰ اپنے تباہ شدہ گھر میں پناہ لینے کے لیے واپس آئی تھی مگر اسے ایک بار پھر بے خل کردیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ "ہمیں نہیں معلوم کہ اب ہمیں کہاں جانا ہے”۔
42 سالہ بیوہ خاتون جس کا شوہر گذشتہ مارچ میں اس کے پڑوسیوں کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں مارا گیا تھا نے مزید کہا کہ "یہ میرے لیے چوتھی نقل مکانی ہے”۔خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اس نے کہا کہ وہ ساحل کے ساتھ ایک وسیع و عریض کیمپ المواصی گئے، لیکن کہیں بھی کیمپ کا نام و نشان نہیں تھا۔
پچاس سالہ فلسطینی رمضان عیسیٰ جوپانچ بچوں کا باپ ہے اور اپنے بڑے خاندان کے 17 افراد کے ساتھ خان یونس سے نکلا۔ ان کا خاندان سینکڑوں لوگوں کے قافلے میں شامل ہو گیا جو کل صبح وسطی غزہ کی پٹی کی طرف پیدل جا رہے تھے۔ اس نے کہا کہ "ہر بار جب ہم اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کے لیے خیمے لگاتے ہیں تو قابض فوجی آتے ہیں اور علاقے پر بمباری کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورت حال ناقابل برداشت ہے۔یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امدادی تنظیمیں غزہ کی پٹی میں تباہ کن انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، جب کہ بین الاقوامی ماہرین قحط سے خبردار کر رہے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ اسرائیل نے متعدد بار غزہ کے متعدد علاقوں سے بڑے پیمانے پر انخلاء کا حکم دیا تھا، جس پر اس کی زمینی افواج نے پہلے دھاوا بول دیا تھا۔اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے جنگجو لوگوں کے ساتھ ساتھ دوبارہ ان علاقوں میں سرگرم ہو جاتے ہیں جہاں سے انہیں پہلے بے دخل کیا گیا ہوتا ہے۔دس ماہ سے جاری جنگ کی وجہ سے غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر لوگ بے گھر ہوئے اور یہ نقل مکانی اکثر کئی بار ہوئی۔ان میں سے دسیوں ہزار دکھی بے گھر عوامی خدمات سے محروم کیمپوں میں جمع ہوتے ہیں۔