جنگ انسانی زندگی کا ایک جزو لازم بن چکا ہے ، جنگ کا یکسر خاتمہ ہوجانا، چہار سو خالص امن کی ہی تصویر ہو یہ دستورِ طبعی کے بر خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جس طریقے سے سوچنے ، سمجھنے ، بولنے کی طاقت و قدرت سے شرف یاب فرمایا، اس کے ماسوا کسی اور مخلوق میں یہ صلاحتیں موجود نہیں ۔ ذات انسان کی تعبیر قرآنی تصویر میں احسن تقویم سے فرمائی ۔ لیکن پھر بھی جنگ و جدال ، قتل و غارتگری ، فتنہ و فساد بمقابل دیگر حیوانات کے انسانی مخلوق میں اس طرح کی دیگر خرابیاں بکثرت موجود ہیں۔ آئیے اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ جنگ ہونے کے اسباب کیا ہوتے ہیں اور انسان اس سے کتنا پریشان حال ہوجاتے ہیں۔
جنگ ہونے کے اسباب اور حدودِ امن کی تشریح :
موجودہ عالمی سیاسی نقطہ نظر سے غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ انسانی طبقہ جنگ کو انسانی فطرت، حیاتیاتی جبلت، مایوسی، خوف اور لالچ، پیسہ پاور و طاقت ، ہتھیاروں کی موجودگی کا ہونا اور اسی طرح کے دیگر عوامل سے دیکھتے ہیں، جو بین الاقوامی سیاست میں جنگ بار بار کیوں ہوتی ہے، جنگ کسی بھی لمحے کیوں ہو جاتی ہے؟ اس طرح سے ذہن میں جنگ سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کی طرف غمازی کرتی ہے ۔ اور مزید یہ بات ان سوالات کے جوابات کو خاص بناتے ہیں کہ جنگیں بنیادی طور پر اقتصادی، مذہبی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر لڑی جاتی ہیں، یہ بات بھی سچ و حق ہے لیکن اس بات کو صرف نظر کرنا بے بنیاد ہوگا کہ آج پوری دنیا میں زیادہ تر جنگیں نظریاتی وجوہات کی بنا پر لڑی جا رہی ہیں۔ اور نظریاتی اختلافات ہی عالمی سطح پر ہونےوالی موجودہ جنگوں کی وجہ و علل ہے، یہ بات ہم سبھی کو تسلیم کرنی پڑے گی ۔
بر خلاف اس کے امن کی بات کریں تو صدیوں سے آج ایک عالم ، دنیا کے بڑے بڑے اسکالر ، ارگنائزیشن، ایڈمنسٹریٹر، اس چھوٹے سے تین حرفی لفظ (امن) پر بات کر رہے ہیں لیکن اس کو قائم کرنے ، قوم و ملت کے مابین عمل میں لانے سے قاصر ہیں ، امن حقیقی معنی میں جنگ سے کہیں زیادہ عام ہے، حتی کہ ایک "غیر واقعہ” کے طور پر امن کی پیمائش کرنا مشکل ہے۔ اصولی سطح پر امن کے بجائے جنگ کی خصوصیت زیادہ سال اور جلد بھی واقع ہوجاتی ہے، لیکن یہ بات حق بجانب ہے کہ عالم کی تمام تر ریاستیں جنگی شرح و فیصدی کے اعتبار سے امن و صلح میں ہیں، اور پہلے کے مقابلے میں نظریاتی اختلافات کی جنگ کے ماسوا جنگیں عالمی سطح پر شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔ جس سے معاشی نظام کےبڑگنے کی کمی تو ضرور ہوتی ہے لیکن نظریاتی طور پر انسان کی زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔
سعودیہ اور ایران کا جنگی شامخانہ اور معاہدہ نو :
سعودی اور ایران یہ دونوں ممالک مذہبی ، جغرافیائی اور دیگر تنوعات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ عرب میں سنی فرقہ سے وابستہ لوگ بستے ہیں اور ایران میں اس سے مخالف گروہ شیعہ کمیونٹی سے لوگ تعلق رکھتے ہیں ، اس طریقے سے یہ دونوں ملک مسلم ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم خطوں میں اپنے اپنے اثر و رسوخ کے قیام کے لیے بے پناہ جدوجہد میں آج کئی سالوں سے مصروف ہیں ۔ کئی بار ان دونوں ملکوں کے بیچ ٹکراؤ پیدا ہوا، جنگیں ہوئیں۔ اور ان دونوں ممالک نے اپنے پڑوس کے ملکوں میں جیسے شام ، یمن کی خانہ جنگیوں سمیت اس سے ملحق دیگر تنازعات میں ان کی مختلف قسموں کی حمایت فراہم کی ۔ اور اسی طرح بحرین، لبنان، قطر اور عراق مملکت کے ساتھ ہر لمحہ شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔ اور تاریخ نے ایک وقت ایسا بھی دیکھا تھا کہ یمن میں، دونوں ممالک نے خانہ جنگی کے مخالف فریقوں کی حمایت کی ۔ جسے اقوام متحدہ نے دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ۔ وہاں سے، حوثی باغیوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں پر میزائل داغے، جس میں تیل کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا تھا جو معیشتوں کے لیے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ان دونوں ملکوں کی لڑائی معاشیاتِ طرزیات نو کی خاطر بھی جاری رہی وسائل معیشت پر قبضہ و دسترس کو حاصل کرنے کا ایک کا بچاؤ اور دوسرے ملک کا قبضہ جمانے کا پیمانہ آج ایک عرصے سے ناپا جارہا ہے ، لیکن تاریخ کی اس جنگ میں دونوں ادھورے رہے مکمل کامیابی کسی کو نہیں ملی ۔
ماضی قریب کا معاملہ یہ رہا ہے کہ سن 2016 میں سعودی عرب ہی میں ایک شیعہ عالم کو پھانسی دے دی جاتی ہے جس کے بعد ایران دارالحکومت میں قائم سعودی سفارت خانے پر وہاں کے باشندگان مظاہرین کی شکل میں دھاوا بولتے ہیں ، جس کی وجہ سے سعودیہ عربیہ اور ایران کے بیچ خلا پیدا ہوتی ہے ۔ جس کی پاداش میں ایک دوسرا ملک ایک دوسرے سے تعلقات منقطع کرلیتاہے ۔ اس کے بعد معاملہ امن و سلامتی کا نہیں رہا کہ خاموشی سے ایک دوسرے نے علیحدگی اختیار کرلی بلکہ ان دونوں ملکوں نے اتنی شدت کی جنگ لڑی جس کو ایک پراکسی جنگ( praxy war) سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لا تعلقی اور شدت پسندی کے نتیجے نے کئی پڑوسی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پورے خطے کو جنگی صورتحال میں بدل دیا ۔ لیکن اب بہت کچھ کھونے کے بعد صورتحال میں بہتری آنے کا رجحان شروع ہوا ہے۔ جیسا کہ بی بی سی نیوز کے مطابق سعودی عرب اور ایران نےجمعہ 10 مارچ سن 2023 کو اعلان کیا کہ انہوں نے سات سال کی دشمنی کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کرلیا ہے، جس سے اب یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ علاقائی حریفوں کے درمیان قائم مخالفت، جنگ ، بدنظمی و بدامنی کی مکدر فضا دور ہوگی اور یہ معاہدہ ضرور مشرق وسطیٰ پر وسیع اثرات مرتب کریں گے۔
اسی معاہدہ کا ایک حصہ یہ بھی رہا ہے کہ جس کو سبھی شرکاء مجلس نے بیجنگ میں ہونے والی بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ریاض اور تہران چین، سعودی عرب اور ایران کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت دو ماہ کے اندر اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا ہم ارادہ رکھتے ہیں۔
اسی طریقے سے 22 سال قبل دستخط کیے گئے سیکیورٹی معاہدے کو دوبارہ نافذ کرنے پر بھی بات چیت ہوئی جس کے تحت دونوں فریق دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ سن 1998 سے بند تجارتی اور ٹیکنالوجی کے معاہدے کو بحال کرنے پر بھی متفق ہوئے۔ جس میں علی شمخانی ایرانی قومی سلامتی کے سربراہ ، موساد بن محمد العیبان مشیر سعودی قومی سلامتی کونسل ، اور چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی موجودہ رہے ، اور انہیں کے درمیان یہ سارا معاہدہ طے پایا۔
یقین مانیے آج جتنے بھی ممالک کے مابین جنگیں چل رہی ہیں وہ اسی طریقے سے اپنے مسائل کی چارہ جوئی کے لیے آگے آئیں اور حل پیدا کریں تو صرف ان دو ممالک ہی کے لیے نہیں معاشیات ، معاشرتی زندگی میں انقلاب ، سیاست و اقتدار میں مضبوطی پیدا ہوگی بلکہ یہ سارے مل کر تمام ممالک کی خواہشات کے مطابق آج کی ڈیجیٹل دنیا میں ہاٹ اسپاٹ کے مسائل کو صحیح طریقے سے نمٹنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرتے سکتے ہیں ۔ سعودیہ اور ایران دونوں ایک بڑے ملک کے طور پر اس قائم نئی تعلقات کے بعد اگر اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے،تو مشرقی وسطی کے سبھی ممالک کی ترقی و خوشحالی میں اچھا رول پیدا کرسکتے ہیں ۔ اور ان دونوں ممالک کی باہم منصوبہ جات کو سبھی اقتدار مملکت کے سربراہان کو اس کی حمایت کرنی پڑے گی ۔اب دیکھتے ہیں کہ ان دونون ممالک کے اس اقدام سے مشرقی وسطی کے ممالک جیسے لبنان ، عراق وغیرہ میں شہریت کے خود مختاری کا احترام کرنے اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی وجہ سے جو خرابیاں پیش آئی یا جو مسائل ابھی حل نہیں ہوئے ، جن کی وجہ سے ہر آنے والا لمحہ خون ریزی کے حادثات و واقعات کو پیش کر رہا ہے اس پر کیا رول ادا کرتے ہیں ۔
اسی طریقے سے چین اور ان دونوں ملکوں کے بیچ تجارتی سطح سے مضبوطی آئے گی ، جیساکہ ان قائم نئے تعلقات میں چین نے اپنی ایک اہم کردار نبھائی اور بلاشبہ یہ چین کے لیے ایک نیا کردار ہے، کیونکہ چین کا دونوں ممالک پر اثر و رسوخ ہے۔ ایران کا چین ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے – ایران کی تجارت کا تقریباً 30 (%) فیصد میں چین شریک کار ہے۔ جو معاشی مستحکم کے لیے ایک بڑا حصہ ہوتا ہے اور اسی طریقے سے سعودی عرب کے لیے چین تیل کا بڑا صارف ہے اور اسی کے برعکس امریکہ کا ایران کے ساتھ براہ راست تعلقات نہیں ہیں،جس سے یہ بات کلیہ طور پر واضح ہوتی ہے کہ یہ امریکہ کے لیے ایک چیلنج کن معاملہ ہے، جو روایتی طور پر مشرق وسطی میں سب سے بڑی غیر ملکی طاقت اور ڈیل میکر (Deal maker)ہے۔
بالآخر اس بات کی امید کے ساتھ یہ مضمون یہاں پر سمیٹا جاتا ہے کہ بلاشبہ یہ معاہدہ ان دونوں ملکوں کے درمیان پھیلی کشیدگی کو کم کرنے، تعلقات کی تعمیر نو اور اپنے پڑوسی ممالک میں ہر ان حریف پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا جو ان ممالک ، شہری ، وطن برادری اور عالمی اتحاد کے مفاد میں بہتر ہوگا اور امن و سلامتی کا پیکر بن کر ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے آگے آئیں گے ۔
شاہ خالد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نیو دہلی