بہار کی سیاست میں مسلمانوں کا کردار ہمیشہ سے نہایت اہم رہا ہے۔ تعداد کے لحاظ سے ریاست کی مسلم آبادی ایک مضبوط انتخابی طاقت ہے، جو کسی بھی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے یا گرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسے میں جب مسلمانوں کی طرف سے جنتا دل (یونائٹیڈ) اور خاص طور پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے علیحدگی کے اشارے ملنے لگے ہیں، تو یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا یہ فیصلہ وقتی جذبات کا نتیجہ ہے یا کسی سنجیدہ سیاسی بصیرت کا عکس؟یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ نتیش کمار ہوں یا لالو یادو یا پھر مرحوم وزیر رام بلاس پاسوان ،یہ سب اسی جے پی آندولن سے نکلے ہوئے شہسوار ہیں جس کا بنیادی نظریہ سوشلزم تھا ۔
نتیش کمار کی سیاست بھی ہمیشہ "سوشلسٹ” نظریہ اور سیکولر اقدار پر مبنی رہی ہے۔ انہوں نے بہار میں لالو پرساد کے بعد اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی، خاص طور پر بی جے پی سے اتحاد کے باوجود اپنے عمل سے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے حقوق کے محافظ ہیں۔ نتیش کمار نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا، مدارس کے اساتذہ کو اعزازیہ دیا، اور اقلیتی فلاح و بہبود کے مختلف منصوبے شروع کیے۔لیکن افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ بہار کے مسلمانوں نے کبھی بھی پوری طرح شدو مد کے ساتھ نتیش کمار کا ساتھ نہیں دیا اور یہی وجہ ہے کہ بہار میں اپوزیشن کی حیثیت سے آج بھی آر جے ڈی کا وجود قائم ہے ۔جبکہ آر جے ڈی کا کور ووٹ بینک جو یادو کمیونیٹی پر مشتمل ہے کا آدھے سے زیادہ ووٹ اقتدار کی حمایت کرتے ہوئے بی جے پی اور جے ڈی یو کی طرف جا چکا ہے ۔یہی وہ وقت تھا جب بہار کے مسلمان اگر نتیش کمار کا پوری طرح ساتھ دیتے تو ان کو بی جے پی کے ساتھ مل کر بہار میں سیاست نہیں کرنی پڑتی ۔لیکن نتیش کمار اپنی اس کمزوری کو بی جے پی کی معاونت سے پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔تاہم حالیہ برسوں میں نتیش کمار کے سیاسی رویے میں جو تبدیلی آئی ہے، اس نے مسلمانوں کو بہت مایوس کیا ہے۔ کبھی این ڈی اے میں، کبھی اس کے خلاف؛ کبھی بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا لینا، اور کبھی سیکولر خیمے کی طرف واپسی—یہ سیاسی قلابازیاں نہ صرف ان کے اعتماد کو متزلزل کرتی ہیں، بلکہ اقلیتوں میں بے یقینی بھی پیدا کرتی ہیں۔ کئی مواقع پر جب مسلمانوں پر مظالم ہوئے، یا اقلیتی حقوق پر حملے ہوئے، نتیش کمار کی خاموشی اور لاتعلقی بھی مایوسی کا سبب بنی۔گو کہ زیادہ ترمعاملوں میں نتیش کمار نے مسلم مخالف شرپسندی کی سرکوبی بھی کی ۔ایسے میں اگر بہار کے مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ نتیش کمار اب ان کے مسائل کو سننے، سمجھنے اور حل کرنے میں سنجیدہ نہیں، تو ان کی ناراضگی قابلِ فہم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ محض ناراض ہوکر یا علیحدگی کا اعلان کرکے کیا کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا؟ سیاست میں علیحدگی کا فیصلہ وقتی جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ طویل المدتی حکمتِ عملی کے تحت ہونا چاہئے۔ نتیش کمار سے علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو کوئی متبادل قیادت اور جماعت درکار ہوگی، جو نہ صرف ان کے حقوق کی مؤثر وکالت کرے بلکہ انہیں اقتدار میں حقیقی شراکت بھی دے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بہار کی سیاست میں مسلمانوں کے پاس مضبوط، خود مختار اور نظریاتی قیادت کا فقدان ہے۔ ان کا انحصار ہمیشہ دوسرے طبقات پر رہا ہے، اور یہی ان کی سیاسی کمزوری بھی ہے۔ اگر آج وہ نتیش کمار سے علیحدہ ہوتے ہیں، تو انہیں ایک نئے سیاسی محاذ کی تشکیل پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ایسا محاذ جو ان کے مسائل کو مرکزیت دے، اور انہیں صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال نہ کرے۔کیونکہ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ اب ملک کی زیادہ تر پارٹیاں مسلمانوں ایشو کو اٹھانے سے گریزاں ہیں ،اور اس کی سب سے بڑی وجہ اکثریتی طبقہ کے ووٹ کا دباؤ ہے اور وہ ماحول بھی جس میں بی جے پی نے مسلمانوں کو ویلن بنا دیا ہے ۔اب ایسے ماحول میں نتیش کمار سے علیحدگی کا اعلان اس وقت فائدہ مند ہو سکتا ہے اگر وہ ایک وسیع اتحاد اور منصوبہ بند سیاسی متبادل کے ساتھ ہو۔ ورنہ یہ ناراضگی صرف طاقت کی تقسیم کو مزید الجھائے گی، اور اس کا فائدہ صرف بی جے پی جیسے فرقہ پرست عناصر کو ہوگا، جو پہلے ہی بہار میں مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے اقتدار حاصل کرنے کے درپے ہیں۔
لہٰذا، جذبات سے بالاتر ہوکر، بصیرت اور حکمت سے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نتیش کمار سے علیحدگی کا اعلان محض احتجاجی عمل نہ ہو، بلکہ ایک نئے سیاسی باب کا آغاز ہو—جس میں مسلمانوں کی آواز، نمائندگی اور عزت دونوں محفوظ ہوں۔