سپریم کورٹ نے بھاجپا لیڈر اشونی کمار اپادھیائے کی عرضی پر کیاسوال، جنہوں نے ضلعی سطح پر اقلیتوں کی شناخت کی عرضی داخل کی ہوئی ہے
مرکزی سرکار نے 14ریاستوں کی رائے سپریم کورٹ میں پیش کی
عامر سلیم خان
نئی دہلی، ، سماج نیوز سر وس:ضلع اور ریاستی سطح پر اقلیتوں کی شناخت کیلئے سپریم کورٹ میں ڈالی گئی عرضی پر عدالت نے کہا کہ ’توپھر کیا ضلع اور ہرگلی محلے کے اعتبار سے اقلیتوں کی شناخت کی جائے، بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے‘؟۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک قانون باز اشونی کمار اپادھیائے جو اقلیتی قانون کو منسوخ کرنے تک کی عرضیاں سپریم کورٹ میں پیش کرچکے ہیں، چاہتے ہیں کہ سرکار ضلع اور ریاستی سطح پر اقلیتوں کی شناخت کی جائے تاکہ جہاں ہندؤوں کے بجائے دیگر اقلیتیں اکثریت میں ہیں، وہاں مرکزی سطح پر متعین اقلیتوں کو مراعات فراہمی کے بجائے ہندؤوں کو دی جائیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے مرکزسے جواب مانگا تھا۔ کئی بار مرکزجواب کیلئے مہلت لیتا رہا تھا، لیکن کل اس نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کردیاہے کہ 14 ریاستو ں سے اس سلسلے میں گفتگو ہوئی اور انہوں نے اپنی رائے پیش کردی ہے۔
مرکزی سرکار نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے ریاستی سطح پر اقلیتوں کو تسلیم کرنے کے معاملہ پر تمام ریاستوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی میٹنگیں کی ہیں۔ جسٹس ایس کے کول اور اے ایس اوکا کو مرکزکے وکیل نے بتایا کہ مرکز کو باقی 19 ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے تبصرے نہیں ملے ۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے مرکزی سرکار کو باقی ریاستوں کے تبصروں کو ریکارڈ پر لانے کیلئے 6 ہفتوں کا وقت دیا۔ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ مرکز میں اقلیتی امور کی وزارت نے 31 اکتوبر کو اسٹیٹس رپورٹ داخل کی ہے۔ بنچ نے کہا کہ اس مسئلہ پر اچانک فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی اچھی طرح جانچ کی ضرورت ہے۔ایڈوکیٹ اپادھیائے کی عرضی کے جواب میں اقلیتی امور کی وزارت کی داخل کردہ اسٹیٹس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے اس لئے یہ عدالت برائے مہربانی ریاستی حکومتوںاورمرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مطلع کر سکتی ہے۔
سماعت کے دوران اپادھیائے نے کہا کہ انہوں نے قومی اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایکٹ، 2004 کے سیکشن 2(ایف) کے جواز کو چیلنج کیا ہے۔انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے 2007 کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں ریاست اتر پردیش کے مئی 2004 کے حکم کو ایک طرف رکھنے کی کوشش کی گئی تھی، جس نے 67 مدارس کو’ گرانٹ ان ایڈ‘ کے طور پر تسلیم کیا تھا۔اس پر بنچ نے جواب دیاکہ آپ کیا پوچھ رہے ہیں؟ کیا اقلیتی درجہ کا تعین ضلعی کیا جا سکتا ہے؟۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ اپادھیائے پھر ہر گلی میں کیوں نہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔اپادھیائے کی عرضی نے ایکٹ کے سیکشن 2(ایف) کوصاف طور پر من مانی، غیر معقول قرار دیاہے۔ معاملہ کی اگلی سماعت جنوری میںہوگی۔ اپادھیائے کی عرضی میں ریاستی سطح پر اقلیتوں کی شناخت کیلئے رہنما خطوط وضع کرنے کی ہدایت مانگی گئی ہے۔عرضی میں 6 ریاستوں اور 2 مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ 2011 کی مردم شماری ان ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ہندوؤں کی آبادی میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کے تحفظ کیلئے قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایکٹ، 2004 میں نافذ کیا گیا تھا۔اقلیتی طبقات وزارت اقلیتی امور کی طرف سے چلائی جانے والی خصوصی اسکیموں سے مستفید ہوتے ہیں۔اقلیتوں کو تعلیمی اداروں اور ٹرسٹوں کو چلانے کی آزادی آئین کے آرٹیکل 30 (6) اور بعض دیگر دفعات کے تحت فراہم کی گئی ہے۔این سی ایم آئی کا قیام سال 2004 میں قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایکٹ کے تحت کیا گیا تھا۔ یہ اقلیتی حیثیت سے متعلق تنازعات کے سلسلے میں ایک اپیلٹ اتھارٹی کے طور پر کام کرتا ہے۔یہ ایک نیم عدالتی ادارہ ہے۔ اسے سول کورٹ کے اختیارات دیے گئے ہیں۔اس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایکٹ میں دی گئی بنیادوں پر کسی بھی تعلیمی ادارے کی جہاں ایک طرف اقلیتی درجہ دے سکتا ہے وہیں دوسری طرف اقلیتی حیثیت کو منسوخ بھی کر سکتا ہے۔