پٹنہ :مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نے اپنے ایک پریس بیانیہ میں کہا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، یہاں آئین کی حکومت ہے ، ملک کے آئین میں اقلیتوں کو کچھ بنیادی حقوق دیئے گئے ہیں، ان میں مذہبی آزادی بھی شامل ہے ، اس کے تحت ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرے ، ملک کے معزز شہری مسلم بھی ہیں ، اس لئے ملک کا آئین ان کو بھی حق عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں ، اگر مذہبی آزادی کا حق سلب کیا جاتا ہے ، تو ملک کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے حق سلبی کے خلاف آواز بلند کریں ، احتجاج درج کروائیں اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو قانونی چارہ جوئی کریں۔
ہمارا ملک ہندوستان ہمیشہ ایک مثالی ملک رہا ہے ، یہاں کے ہر شہری ہندو ، مسلم ،سکھ ،عیسائی اور دیگر اقلیتیں آپسی میل و محبت سے رہتی آئی ہیں ، حکومت نے بھی ہمیشہ آئین کی پاسداری کی اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ، مگر افسوس کی بات ہے کہ اب پہلی جیسی حالت دیکھنے میں نہیں آرہی ہے ، ملک میں بعض اقلیتوں پر ظلم کئے جارہے ہیں ، بالخصوص مسلم اقلیت اس سے زیادہ متاثر ہے ، افسوس کی بات یہ ہو رہی ہے کہ اب حکومت بھی مذہبی آزادی سلب کرنے اور مذہبی حقوق چھیننے کا کام کرنے لگی ہے ، حکومت خود یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کر رہی ہے ، بات ہی نہیں ،بلکہ بعض اسٹیٹ میں اس کو نافذ بھی کیا جا رہا ہے ، حالانکہ یکساں سول کوڈ مذہبی آزادی بالخصوص مسلم پرسنل لا کے خلاف ہے ، مرکزی حکومت کی جانب سے وقف ترمیمی بل پاس کیا جارہاہے ، جس کی وجہ سے وقف میں مداخلت ہوگی ، حالانکہ وقف بھی مسلم پرسنل لا کا حصہ ہے ، اس طرح یکساں سول کوڈ اور وقف ترمیمی بل دونوں ہی مسلم پرسنل لا کے خلاف ہیں اور ملک کے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں۔
ملک میں مسلم سماج کی مذہبی آزادی کے برعکس حکومت کی جانب سے مسلسل ایسے قوانین پاس کئے جارہے ہیں ، جن کی وجہ سے ان کے مدارس ، مساجد ، خانقاہ ، قبرستان اور مسلم پرسنل لا کے بہت سے حصے ان قوانین کے زد میں آرہے ہیں، ایسے قوانین مسلم پرسنل لا اور ملک کے آئین کے خلاف ہیں۔
موجودہ وقت میں حکومت کی جانب سے دو قوانین لائے جارہے ہیں ،ایک یکساں سول کوڈ اور دوسرا وقف ترمیمی بل ، یہ دونوں مسلم پرسنل لا اور ملک کے آئین کے خلاف ہیں ، مذکورہ دونوں قوانین نے ملک کی ملی و سماجی تنظیموں اور عوام و خواص کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
مذہب سے انسان کا گہرا تعلق ہوتا ہے ، آدمی سب کچھ برداشت کرسکتا ہے ، مگر مذہب اور دین و شریعت پر حملہ برداشت نہیں کرتا ہے ، اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے ، یہی وجہ ہے مذہبی آزادی کے حقوقِ کے تحفظ کے لئے ملک کی اقلیتوں نے تنظیمیں بنائی ہیں ، مسلم سماج کے لوگوں میں بھی ملی تنظیمیں اور بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ قائم ہیں ، جو مسلم سماج کے مذہبی اور ان کے دیگر حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہیں۔
موجودہ وقت میں جب سے حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ اور وقف ترمیمی بل کے ذریعہ مذہبی آزادی پر پابندی لگانے کی کوشش شروع کی گئی ، تو اس کے خلاف تمام ملی تنظیموں اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملک کے آئین میں دیئے گئے مذہبی آزادی کو بحال کرانے کے لئے کوششیں کیں ، حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں کیں ، میمورنڈم دیا ، مشورے بھیجے ، مگر حکومت نے اس پر دھیان نہیں دیا ، بالآخر ملک کی سب سے باوقار تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حکومت تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے جمہوری طریقہ کو اپناتے ہوتے ملک کے آئین کے دائرے میں مورخہ۱۳؍ مارچ۲۰۲۵ء کو دہلی کے جنتر منتر دھرنا استھل پر پر امن احتجاج کا اعلان کیا ہے ، اس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اراکین ، ملی تنظیموں کے قائدین اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی رہنما حصہ لیں گے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ اقدام جرأت مندانہ اور قابل ستائش ہے ، اس سے مسلم پرسنل لا کے ساتھ دیگر اقلیتوں کے مذاہب کا بھی تحفظ ہوگااور ملک کے آئین کی بھی حفاظت ہوگی ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اعلان پر دیگر اسٹیٹ میں بھی آئین اور جمہوری نظام کے دائرے میں پروگرام منعقد کئے جانے کا اعلان کیا گیا ہے ، یہ بھی قابل تحسین ہے ، اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے احتجاج میں شرکت کر کے احتجاج کو کامیاب بنانے کی اپیل کی گئی ہے ۔
اس لئے ہم سبھی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اعلان کی روشنی میں پر امن احتجاج میں بھر پور حصہ لیں ، اور ملی بیداری کا ثبوت دیں ، یہ وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔