کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی کی اکثریت کی جیت کے ساتھ کانگریس ہائی کمان کو ایک طرح سے نشہ چڑھ گیاتھا،جس کی وجہ سے وہ بی جے پی کی حقیقی جیت کی وجہ سے لاپرواہ ہوچکی تھی اور آنےوالے دنوں میں بھی کانگریس پارٹی کیلئے یہ ایک بہت بڑا سوال ہوسکتاہے۔سال2014 سے اب تک بی جے پی کی جیت کا سہرا بھلے ہی وزیر اعظم نریندرمودی کے سرباندھاجارہاہے،لیکن حقیقت میں بی جے پی کی جیت مودی کی وجہ سے نہیں بلکہ ای وی ایم کی وجہ سے ہوتی رہی ہے۔2014 کے بعدہر جگہ بی جے پی کی کامیابی نے شک کی سوئیاں سیدھے طورپر ای وی ایم کی طرف گھومنے لگی تھیں اورملک بھرمیں ای وی ایم ہٹائو ،جمہوریت بچائو کانعرہ لگاتے ہوئے مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور شخصیات نے ای وی ایم کی مخالفت میں کھڑی ہوئی تھیں۔ای وی ایم کے طریقہ کارپر لوگ سوالات اٹھارہے تھے،ساتھ ہی ساتھ ای وی ایم کی بدعنوانیاں کھلے عام لوگوں کے سامنے دکھائی دے رہی تھیں،اس بات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نےنیافارمولہ اپنایا جس کے تحت وہ ہر جگہ ای وی ایم کا استعمال کرنے کے بجائے تیرا ایک،میرے دو،تیرے تین،میرے چارکے فارمولے پر الیکشن کرنے لگے۔مثال کے طورپر گذشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران پنچاب کو عام آدمی کے حوالے کیااور یو پی و آسام کو اپنے ماتحت کرلیاہے،اس کے بعد کرناٹکا اسمبلی انتخابات کے دوران کرناٹک میں کانگریس کوموقع دیااور اس کےبعد دوسری ریاستوں میں بی جے پی نے اپنا پرچم لہرایا۔اس بار تلنگانہ میں کانگریس کوجیتنے کاموقع دیا،باقی تین ریاستیں مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اپنی جیت درج کرائی۔باریکی سے جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی سے پہلے کانگریس مضبوط پارٹی تھی،وہاں کانگریس پارٹی کا خاتمہ کرنے کیلئے عام آدمی پارٹی کو موقع دیا،پنچاب میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی،اس حکومت کو ختم کرنے کیلئے عام آدمی پارٹی کو موقع دیا۔اسی طرح سے یوپی میں سماج وادی پارٹی حکومت کو ختم کرنے کیلئے بی جے پی خود براجمان ہوئی،اب تلنگانہ میں بی ایس آرپارٹی کو ختم کرنے کیلئے کانگریس کو موقع دینے کے امکانات واضح ہیں۔درحقیقت ہندوستان کا جمہوری نظام ایک ایسی مشن کے ذریعے سے چُناجارہاہے،جسے دنیاکے تمام ملکوں میں ناقابل قبول قراردیاگیاہے۔امریکہ جیسے ملک میں ای وی ایم کااستعمال نہیں ہے،وہی بھارت میں ای وی ایم کا بھرپور استعمال کیاجارہاہے۔ کانگریس سمیت تمام سیکولرپارٹیاں2014 کے بعد ای وی ایم کے خلاف کھڑے ہوئے تھے،مگر وقتاً فوقتاً انہیں اقتدارملنے پر وہ ای وی ایم کے تئیں اپنی سوچ کو مثبت بنانے کی کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کی دیگر سیاسی جماعتیں بی جے پی کے سامنے کمزورہوتی جارہی ہیں۔جب کسی کوسردرد ہوتاہے تو وہ دوائی لیتاہے اور دردکم ہوتے ہی سردرد کی گولی کی اہمیت کم ہوجاتی ہے،اسی طرح سے ای وی ایم اور سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہورہاہے،جب الیکشن ہارتے ہیں تو ای وی ایم یادآتاہے،جب الیکشن میں جیت جاتے ہیں تو ای وی ایم کو مبارکباد دیتے ہیں۔بہوجن کرانتی مورچہ کے سربراہ وامن مشرم نے واضح کیاکہ جب تک بھارت میں ای وی ایم کا راج رہے گا جب تک بی جے پی زندہ باد رہے گی۔سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ای وی ایم کو ہلکے سے نہ لیں،یہ ایک ایسا سانپ ہے جو اپنے مالک کے پاس دودھ پی کر کبھی بھی ڈس سکتاہے۔بہوجن کرانتی مورچہ(بمسیف) مسلسل اس کوشش میں ہے کہ بھارت میں ای وی ایم کے رواج کو ختم کیاجائے اور روایتی بائلٹ باکس کے ذریعے سے الیکشن کروایاجائے،لیکن اس سمت میں کانگریس سمیت دوسری سیاسی جماعتیں سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کررہی ہیں،حالانکہ ای وی ایم کانگریس کی ہی پیداوارہےاور ایک وقت تک کانگریس نے بھی اسی ای وایم سے فائدہ اٹھایاہے،لیکن اب کانگریس کےہاتھ سے ای وی ایم کی باگ ڈور نکل گئی اور اب یہ باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھوں میں ہے،جسے دوبارہ حاصل کرنے میں کانگریس پارٹی پس وپیش کا شکارہورہی ہے۔اگر آنےوالے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کواقتدار سے دورکرناہے تو سب سے پہلے ای وی ایم مشینوں کو الیکشن کے نظام سے دور کرناہوگا،ورنہ کانگریس توکیا ملک کی پوری عوام بھی مل کر بی جے پی کے خلاف ووٹ کرتی ہے تو بی جے پی کو شکست دینا ناممکن ہوگا۔جو لوگ ای وی ایم کے خلاف عدالتوں سے رجوع ہوئے ہیں،اُن لوگوں کا ساتھ دینا بھی سیکولرجماعتوں کی ذمہ داری ہوگی،ورنہ طاقت کے بغیر یہ لوگ کب تک عدالتوں میں اکیلے کھڑے ہوکر چلّاتے رہینگے۔
از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔ 9986437327