وطن عزیز میں بسنے والے مختلف قسم کے پھول ہیں اور ان پھولوں کی خوشبو کی لذتیں محبتوں کا گلدستہ ہے،ان کی تہذیب وثقافت الگ الگ، ہر ایک کے پرسنل لا ءجدا جدا، مذاہب و لسانیات کی منفردانہ چاشنی کا کیا کہنا؟آپ غور کیجئے کہیں گنگا جمنی تہذیب تو کہیں آب زم زم سے سیرابی، ہر سماج میں شادی، رہن سہن، کھانا پینامختلف،دلت لڑکا اور لڑکیوں کی شادی الگ، جین، سکھ، بودھ، آدی واسی کی شادیوں کا نرالہ انداز، برادران وطن کی اکثریت شادی کو سنسکار تصور کرتے ہیں جسے جنم کا ساتھی کہا جاتا ہے اور اہل ایمان میں شادی ایک معاہدہ ہے جو جانبین کی رضا مندی اور گواہوں کی شرط سے طے پاتی ہے، زوجین کا بالغ ہونا ضروری ہے،شرعی طور پر ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا حق ہے لیکن ایسا عموماً ہوتا نہیں ہے البتہ کسی مجبوری ،ضرورت واستطاعت کے تحت لوگ کرلیتے ہیں، اور ایسا کرنا وطن عزیز کا قانون بھی بلا تفریق مذہب اجازت دیتا ہے۔ رہا سوال مسلم پرسنل لاءکا تو یاد رکھئے مسلم پہ اللہ کا دیا ہوا قانون ہے اور یہ قانون پوری انسانیت کےلئے ہے اور اسی میں کامیابی ہے۔ہم اور آپ اس قانون پر اس وقت تک عمل کرتے رہیںگے جب تک جسم میں روح باقی ہے اور اس قانون کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے اور کہا’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘ہم سب انفرادی اور اجتماعی طورپر اس قانون پر عمل کریں، اپنی زندگی میں اتاریں، حلال و حرام کی تمیز پیدا کریں اوراللہ کے سامنے روئیں گڑگڑائیں، مانگیں آج نہ کل حق کا سورج نکلے گا۔ ان شاءاللہ۔
وطن عزیز میں رائج قوانین کی دو قسمیں ہیں: سول کوڈ اور کرمنل کوڈ، پہلی قسم کے دائرے میں وہ قوانین آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی، تمدنی اور معاملاتی مسائل سے ہے، اس قسم کے بیشتر قوانین بھی تمام اہل وطن کےلئے یکساں ہیں ۔ البتہ اس قسم کا ایک حصہ جسے پرسنل لاءکہتے ہیں، ملک کی بعض اقلیتوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں، ان مذاہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیاگیا ہے، اسی کو پرسنل لاءکی آزادی کا نام دیا جاتا ہے، اسی کے تحت مسلمانوں کو بھی یہ اختیار دیاگیا ہے کہ شرعی معاملات کے مطابق ہی مذکورہ معاملات کا فیصلہ کریںگی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے بانی امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ تبدیلیاں ہمیشہ دبے پاؤں آتی ہیں اور پچاس برس بعد اس کے نتائج سامنے آتے ہیں،ذہین اور زندہ امت کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ چوکنا رہے اوران عوامل و مؤثرات پر نگاہ رکھے جو ابھی معمولی محسوں ہوں،اگر ابتدائی حالات میں ان پر نگاہ نہیں رکھی گئی اور امت کا ذہن آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار نہیں کیا گیا تو وقت آنے پر سوائے کف افسوس ملنے کے اور کوئی حاصل نہیں ہوگا اورآنے والی تبدیلی کے طوفان کو پھر نہیں روکا جاسکے گا۔یکساں سول کوڈ ملک کے خلاف ایک سازش ہے، جس کی بنیاد ایک ملک، ایک قوم،ایک تہذیب و ثقافت کے فاشسٹ نظرےے پر قائم ہے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں۔ آرٹیکل۴۴ ایک رہنما اصول ہے جواختیاری ہے، لازمی نہیں۔ اس کے برعکس بنیادی حقوق لازمی،ضابطے کے صیغے میںآتے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم آئین کی دفعہ 25ہے جس کے تحت امن عامہ، صحت، اخلاق اور دوسری شرائط کو رکھتے ہوئے تمام اشخاص مساوی طورپر آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پرعمل کرنے اوراس کی اشاعت کا حق رکھتے ہیں اس لحاظ سے دفعہ25 کو آرٹیکل 44 پر برتری حاصل ہے۔کسی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دیہاتی نوجوان کی ملاقات دہلی میں پلی بڑھی ایک لڑکی سے ہوئی، نوجوان مدرسہ کا فارغ التحصیل اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا،شناسائی بڑھی تو وہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے یہاں تک کہ معاملہ عشق تک پہنچ گیا،عموماً عشق میں یہ ہوتا ہے کہ فریقین میں سے کوئی ایک یا دونوں اپنے آپ کو اس وہم میں مبتلا کرلیتے ہیں کہ اس کے بغیر جی نہیں سکتے یہاں بھی یہی ہوا ان دونوں نے رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کا فیصلہ کرلیا ،والدین نے بھی بچوں کی پسند اور ان کی ضد کے آگے سرجھکا دیا شادی ہوگئی لیکن جیسا کہ سائنسدانوں کی نئی تحقیق ہے کہ عشق کی عمر تیس چالیس ماہ ہوتی ہے،یہ نشہ اتراتو دونوں نے اپنے آپ کو ایک دوسرے کےلئے نامناسب یا ان فٹ پایا، لڑکی تعلیم یافتہ بھی تھی اس نے یقینا شادی سے پہلے اس نوجوان کو خوب اچھی طرح سے سمجھ لیا تھا پھر اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لڑکے نے بھی اس سے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی اور وہ اس سے جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا مگر دہلی کی یہ لڑکی گاؤں میں کسی بھی قیمت پررہنے کو تیارنہیں تھی وہ اپنے شوہر کے بھائی بہنوں اور والدین کے ساتھ بدسلوکی کرتی تھی، ان کو ذہنی اذیتیں دیتی تھی، شوہر اب بیرون ملک ملازمت کرنے لگا تھا لیکن اسے یہ منظور نہ تھا کہ اس کی بیوی تنہا یا اپنے والدین کے ساتھ دہلی میں رہے، وہ اسے اپنے والدین کے ساتھ اپنے آبائی مکان میں رکھنا چاہتا تھا جہاںوہ سال میں ایک دوبار آتا جاتا رہتا تھا لیکن بیوی اس کی یہ بات ماننے اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ گزر بسر کرنے کےلئے کسی بھی قیمت پر تیارنہ تھی، لہٰذا اب اس کے گھر میں ایک خانہ جنگی رہنے لگی۔ عاجز آکراس نے اسے طلاق دے دی۔ اس کے مہر کی رقم پہلے ہی ادا کرچکا تھا، بقیہ واجبات بھی ادا کر دےئے، اب سسرال والے اس کو اور اس کے اہل خانہ کو جہیز کےلئے اذیت دینے کا مقدمہ کر دینے کی دھمکی دیتے ہیں جس کے جواب میں وہ شخص کہتا ہے کہ وہ چاہے جس طرح کا مقدمہ بھی کر دیں عدالت میں وہ انکار کر دے گا کہ اس نے اس کو طلاق دی ہے، وہ عدالت میں کہے گا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،جبکہ وہ اسے اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہے، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کی نوبت آگئی تو وہ اس کو خرچ تو دے گا لیکن اسے بیوی کی طرح نہیں رکھ سکتا کیوںکہ وہ اسے طلاق دے چکا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا کوئی قانون یا عدالت ہے جو گھر کے اندر جاکر ان دونوں کے رشتے درست کرے؟کیا اس مسئلے کاحل کسی کے پاس ہے؟ گھر قانون سے نہیں چلتا محبت اور ایثار سے چلتا ہے، اسلام نے سماج کوبدکاری سے پاک کرنے کےلئے نکاح کو آسان اور ایک بین الفریقین معاہدہ بنایا ہے لیکن گھر سکون کی جا ہو کہ اسی کے سکون پر اگلی نسلوں کا مستقبل منحصر ہے، جہنم یا میدان جنگ نہ بن جائے اس کےلئے اس نے جملہ معاشی ذمہ داریاں ایک فریق پر ڈالیں اسی کو اس معاہدہ کو توڑنے کا اختیار دیا اور فریق ثانی کو معقول معاشی تحفظات مہیا کرائیں اس کے برعکس اگر بعض مسلم مردوں اور عورتوں نے شریعت کے انتظامات کا غلط استعمال کرکے گھروں کو جہنم بنایا ہوا ہے تو دوسری طرف مذہب مخالف عناصر نے گھروں کو میدان جنگ بنانے اور گھروں کے جھگڑے عدالتوں تک پہنچانے کا سامان کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے، ان میں بھی زیادہ پیش پیش یا تو وہ لوگ ہیں جن کے اعصاب پر اسلام دشمنی سوار ہے ورنہ ان کے اپنے مذاہب میں رشتہ ازدواج کی شرطوں میں اس طرح کے سماجی و معاشی تحفظ کا دور دور تک کوئی تصور بھی نہیں جو اسلام نے خواتین کو دیا ہے یا پھر وہ لوگ مردو عورت کے رشتے کو بھی جائزاور قانونی مانتے ہیں جس کا کوئی نام نہیں اور جس کے تحت مردو عورت جب تک چاہتے ہیں ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور جب جی بھرجاتا ہے الگ الگ ہوجاتے ہیں۔دیش میں بہت ساری عورتیں ایسی بھی ہیں جن کی شادی سناتن دھرم کے مطابق ہوتی ہے اور شوہر ہمیشہ کےلئے غائب ہو گیا اور بیوی بیوہ جیسی زندگی گزار رہی ہے۔ اس عورت کو انصاف کون دے گا، اس کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ اگر اس قسم کے مسئلے کا کوئی حل ہے تو وہ سماج کے پاس ہے، قانون کے پاس ہرگز نہیں۔اب قانون کچھ بھی بنادیں، یہ رشتے قائم بھی ہوتے ہیں مذہبی اصولوں پر اور ٹوٹتے بھی ہیں مذہب اور عقائد ہی کے مطابق، دوسرا پہلو یہ کہ عدالتیں لوگوں کے گھروں میں گھس کران پر قوانین نافذ کرنے نہیں جاتی وہ اس وقت مداخلت کرتی ہیں جب کسی دو فریق میں اختلاف یا تنازع پڑجاتا ہے اور لوگ اپنا مقدمہ لے کر عدالت میں جاتے ہیں۔ کوئی اپنے پرسنل لاءپر عمل نہ کرے تو کیا اسے تبدیل کردیا جانا چاہئے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور لاءلاگو کیا جائے تو کیا ضمانت ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا؟ یہاں سوال پرسنل لاءپر عمل کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے سوال دیگراقلیتوں کے پرسنل لاءکا بھی نہیں ہے ۔سوال صرف یہ ہے کہ وہ حکومت جو صرف مسلمانوں کی مخالفت کی بنیاد پر اقتدار پر آئی ہو، وہ مسلمانوں کے پرسنل لاءکو کیوں کر برداشت کرے، جو لوگ اس وقت ملک کے اقتدار پر قابض ہیں وہ مسلمان کے مذہب، شریعت، پرسنل لاءکو جانے دیجئے، ان کے وجود تک کو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں، اس دشمنی کے نتیجے میں پرسنل لاءمیں تبدیلی کی مہم چلائی جارہی ہے لیکن یہ مہم چلانے والوں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ دیش کے ساری پھولوں کو ایک درخت سے کیسے پیدا کیا جائے گا تو دائیں بائیں جھانکیں گے اور کہیں گے”ایک دیش ایک قانون“جس کا ترجمہ کسی ملک کے کسی قانون میںنہیں کی جاسکتی۔