ملک میں 7تاریخ سے پارلیمنٹ کاسرمائی اجلاس چل رہا ہے لیکن کارروائی اتنی اطمینان بخش نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے تھی۔اپوزیشن جماعت کانگریس ،چین پربحث کرانے کا ایک طرف مطالبہ کررہی تھی تو وہ اب اپنے ہی صدر کے ایک بیان پر حکمراں بی جے پی کے ہنگامے سے دبائو میں نظر آرہی ہے ،کھڑگے سے معافی مانگنے کا شدت سے مطالبہ کیا جارہا ہے اور بی جے پی کے لیڈر کھڑگے پر حملہ آور ہیں۔قابل ذکر ہے کہ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے ایک دن پہلے نے بی جے پی کو لے کرایک بیان میں کہا کہ کانگریس کے بہت سے لیڈروں نے آزادی کی لڑائی میں اپنی جانیں دیں، لیکن بی جے پی والوں کے گھر سے آزادی کی لڑائی میں ایک ’کتا‘ بھی نہیں مرا۔ کھڑگے نے کہا کہ ہم نے ملک کو آزادی دلائی اور اندرا اور راجیو گاندھی نے ملک کی یکجہتی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، لیکن آپ نے کیا کیا؟
حالانکہ کھڑگے کا یہ بیان پارلیمنٹ کے باہر ایک تقریر کا حصہ تھا ،لیکن اب اندرون پارلیمنٹ اس پر کافی ہنگامہ کیاجارہا ہے اور کانگریس کو دبائو میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ظاہر ہییہ بعید از امکان نہیں تھا۔یہ بی جے پی کی ایک حکمت عملی کے تحت ہو رہا ہے ،کیونکہ وہ چین پر اپنی بے عزتی کو مزید دیکھنا نہیں چاہتی،لہذا اب کانگریس صدر کے بیان کو لیکر شورشرابہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس سے اپوزیشن کو دبانے اور اس کو چین کے تنازع والے ایشو سے ڈائیورٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اصل بات تو یہ ہے کہ اس ہنگامہ آرائی سے ممبران اور لوگ اصل ایشو سے ایک بار پھر بھٹک گئے ہیں ۔جو اصل ایشو تھا وہ چین کا معاملہ تھا جس کو حاشیہ پر رکھنے کے لئے بی جے پی کو ایک اچھا موقع ہاتھ لگ گیا ہے۔کانگریس چین تنازع پر دونوں ایوانوں میں بحث کرانا چاہتی ہے ،اپوزیشن کا سوال ہے کہ حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں کیوں نہیں لے رہی ہے ۔ادھر کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے بیان سے مطمئن نہیں ہے ۔بی جے پی بھی کھڑگے کے بیان سے آگ بگولہ ہے ۔
سوال یہ ہے کہ یہ ہنگامے اور واک آئوٹ کا سلسلہ کب تھمے گا !اور ایوان میں باقائدگی سے کام کیسے شروع ہوگا؟ اس میں دونوں ہی جماعتوں کو ٖفیصلہ کرنا ہوگا کہ ایوان کی کارروائی مثبت بحث کے ساتھ کس طرح سے کی جائے ،اور قیمتی وقت برباد ہونے سے کیسے بچایا جائے۔سوال یہ نہیں ہے کہ کون سی جماعت درست ہے اور کون غلط کہہ رہی ہے ،سوال یہ ہیکہ جمہوریت میں اپوزیشن کا جو رول ہونا چاہئے اور اس کو قبول کرنے کا حکمراں جماعت کا جو کردار ہونا چاہئے اس کا پارلیمنٹ میں فقدان پایا جارہا ہے ۔کسی بھی بات کو خواہ وہ پارلیمنٹ کے باہر کہی گئی ہو ،ناشائستہ کہہ کر اپوزیشن کے متھے منڈھ دی جاتی ہے اوراس میں تمام وقت برباد ہوکر رہ جاتا ہے ۔بی جے پی کے الزامات تہمتوں کی حد تک جا پہنچے ہیں پیوش گوئیل کو کھڑگے کے بیان میں ملک کے لیڈروں کی توہین نظر آرہی ہے !۔اور وہ کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کی وجہ سے کشمیر کی صورتحال آج ایسی ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ چین تنازع نیا نہیں ہے ،کانگریس کی حکومت کے دوران ہی چین نے 38000 کلومیٹر ہندوستانی علاقہ ہتھیا لیا تھا!۔
سوال یہ ہے کہ بی جے پی موجودہ صورتحال پر کیوں کوئی بات کرنا نہیں چاہتی ،پچھلے سالوں کا رونا رو کر وہ کیا ظاہر کرنا چاہتی ہے ،کیاموجودہ مودی حکومت کے دوران چین کی فوج کی طرف سے جو کچھ دھاندلیاں اور اس کے فوجیوں کی غنڈہ گردی جاری ہیںکیا اس کی ذمہ دار بھی کانگریس ہے؟،یا اس پر موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا جانا چاہئے ؟ آخر اور کس وقت کا انتطا کیا جارہا ہے ،کیا یہ غلط ہے کہ آر ایس ایس کے لیڈر نے انگریزوں سے معافی مانگی تھی ،کیا یہ درست نہیں ہے کہ کانگریس کو اپنے اہم لیڈروں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی قربانی دینی پڑی ،اگر بی جے پی نے کسی لیڈر کی قربانی دی تو وہ بھی اس کو سامنے لا سکتی ہے ،بلا وجہ پچھلے گڑے مردے نکالنے سے کچھ نہیں ہو نے ہوگا!۔یہ بحث لا حاصل ہے ، اس وقت ہمارے ملک کی زمین کو بچانے کی ضرورت ہے ،چین کی جانب سے ہمارے جو فوجی مارے گئے اس پر سخت احتجاج کیا جانا چاہئے تھا لیکن چھوٹی موٹی اشیا ء یا پھر ٹک ٹاک جیسے موبائل ایپس پر پابندی لگادینے سے چین پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ گلوان گھاٹی میں پچھلے دو سال قبل اپری لے مہینے میں ہمارے بیس فوجی مار دئے گئے تھے اور کئی درجن زخمی ہوئے تھے ،اس کے بعد توانگ میں ایک بار پھر ہمارے چھ فوجی چینی فوجیوں کے ساتھ تصادم میں زخمی ہوئے ہیں ، یہ سب کیسے ہورہا ہے ،جب چین کی فوج ہماری زمین میں نہیں گھسی ؟ کیااس پر چھان بین اور چین سے بات چیت کی ضرورت نہیں ہے؟ ۔اس معاملے پر حکومت کو اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کانگریس پر شائستہ اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کر کے ملک کو مزید گمراہ نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ ارکان کو ضوابط کا خیال رکھنا چاہئے،لیکن فضول کی بحث میں پڑنے کے بجائے ایوان کی کارروائی میں مثبت بحث کرائی جائے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے ۔
یہی جمہوریت ہے ورنہ اس کا مقصد بے معنے ہو کر رہ جائیگا۔بی جے پی کو اس بات کا شعور کیوں نہیں ہے کہ بھارت ایک بڑی جمہوری ریاست ہے اور اس کے اپنے تقاضے ہیں جن کو کچلا جانا یا ان کی ناقدریکرنا ٹھیک نہیں ہے۔ایوان میں ہنگامہ آرائی کر کے اور باتوں کا رخ موڑ کے ملک کو گمراہ نا کیا جائے ۔