الیکٹورل سسٹم والی جمہوریت میں ووٹ کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ووٹ کی اسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ بی جے پی سرکار جو مرکز سمیت ملک کے زیادہ تر ریاستوں میں برسر اقتدار ہے اپنے ہی وعدوں کے بوجھ سے اب بری طرح ہلکان ہو چکی ہے ۔ہرانتخاب میں ای وی ایم کی سیٹنگ کے ذریعہ اپنے ووٹ کی تعداد میں اضافہ کرنے کا اس کا طریقہ بھی اب ایکسپوز ہو چکا ہے ایسے میں اقتدار پر قابض رہنے کے لئے اس نے ایک نیا طریقہ ڈھونڈا ہے ۔اور اسے لگتا ہے کہ اس طریقہ سے اس کے اقتدار کی مدت مزید بڑھ جانے گی ۔اس سلسلہ میں اس نے الیکشن کمیشن کا موثر استعمال کرنے کا آغاز کردیا ہے ۔بہار میں ایس آئی آر کے تحت ووٹر لسٹ کو نئے سرے سے بنایا جا رہا ہے تاکہ بوتھ لیول پر ووٹوں کی تعداد میں پھیر بدل کر کے بی جے پی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ نہ بھی ہو تو حزب اختلاف کے ووٹ کی تعداد کم کر دیا جائے ۔اور اس سلسلے میں جو خبریں آ رہی ہیں وہ نہایت تشویشناک ہے ۔نہ صرف اس لئے کہ بہار میں اسے بہت زیادہ فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے بلکہ ان دیگر ریاستوں میں بھی اسے خاطر خواہ فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے جہاں ان کی سرکار نہیں ہے ۔ووٹرلسٹ میں اس ہیرا پھیری سے بی جے پی نے مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور ہریانہ میں اپنی سرکار بنائی ہے ۔یعنی اس کا یہ تجربہ کامیاب رہا ہے لہذا اب وہ کھل کر ووٹر لسٹ پر تجربہ کر رہی ہے ۔بہار میں اس کا یہ تجربہ اس لئے بھی کامیاب ہو سکتا ہے کہ وہاں ذات کی بنیاد پر ووٹ دینے کا رواج پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے ۔اور بوتھ لیول پر کام کرنے والے بی ایل او کو یہ معلوم ہے کہ کس بوتھ پر کس کمیونیٹی کے زیادہ ووٹ ہیں اور وہ کس پارٹی کو جا سکتے ہیں ۔لہذا ایسے ایسے چنندہ بوتھ پر کاغذات کی عدم دستیابی کے بہانہ نہایت آرام سے ووٹر کے نام کو خارج کیا جا رہا ہے ۔
اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی مبصرین ابھی سے بہار اسمبلی انتخاب میں بی جے پی یا این ڈی اے کی کامیابی کو یقینی قرار دے رہے ہیں ۔
65 لاکھ ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹائے جانے کی خبر اگرچہ بہت سنگین اور تشویشناک ہے، لیکن صرف اسی بنیاد پر یہ کہنا کہ انڈیا الائنس بہار اسمبلی انتخابات میں یقینی طور پر ہار جائے گا، جلد بازی ہوگی۔ اس معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر واقعی 65 لاکھ ووٹ کاٹے گئے ہیں، تو یہ تقریباً 8-10 فیصد ووٹر بیس کو متاثر کرتا ہے، جو بڑا فیکٹر ہے۔
مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ ووٹ کس طبقے، علاقے اور عمر کے لوگوں کے کاٹے گئے ہیں۔اگر زیادہ تر ووٹ اقلیتوں، دلتوں یا مہا دلتوں کے ہیں، تو یہ انڈیا الائنس کے لیے تشویش کی بات ہو سکتی ہے۔
اگر کاٹے گئے ووٹ کسی ایک پارٹی یا طبقے کو یکطرفہ نقصان نہیں پہنچاتے، تو اس کا اثر نتائج پر کم پڑ سکتا ہے۔
ووٹر لسٹ سے نام کاٹنے کا مطلب شکست نہیں ہوتا
کئی بار ووٹر لسٹ کی صفائی کے نام پر بے قاعدگیاں ہوتی ہیں، لیکن عدالت، الیکشن کمیشن اور عوامی دباؤ سے اسے روکا جا سکتا ہے۔
اگر انڈیا الائنس اس معاملے کو انتخابی مدعا بناتا ہے اور ووٹرز کو متحرک کرتا ہے تو یہ قدم بی جے پی کے خلاف بھی جا سکتا ہے۔
بہار میں ووٹ صرف ایک عددی کھیل نہیں ہے، یہاں ذات، علاقہ، قیادت اور بیانیہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر نتیش کمار، تیجسوی یادو، اور کانگریس ووٹروں کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو ووٹ کٹنے کے باوجود وہ برتری حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر 65 لاکھ ووٹ کاٹنے کی تصدیق ہو جائے اور یہ منظم سازش ثابت ہو، تو عوامی ناراضگی بی جے پی کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔
اپوزیشن اگر اسے سیاسی ہتھیار بنائے تو عوامی جذبات ان کے حق میں جا سکتے ہیں۔
صرف ووٹ کٹنے کی بنیاد پر انڈیا الائنس کی ہار کو یقینی قرار دینا درست نہیں۔
سیاسی فضا، عوامی رد عمل، اپوزیشن کی حکمت عملی اور زمینی سیاست، سب مل کر نتائج کا تعین کرتے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اگر ووٹر لسٹ میں اتنی بڑی تعداد میں بے قاعدگی ہوئی ہے تو یہ جمہوریت اور انتخابات کی شفافیت کے لیے خطرہ ہے، اور اس پر شدید احتجاج اور قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔