نئی دہلی ،عامر سلیم خان نے معروضی اور تفتیشی صحافت کا حق ادا کر دیا۔ عامر سلیم خان ایک باشعور صحافی تھے، یہ نیوز ایجنسیوں کی خبروں اور سرخیوں کو من و عن قبول نہیں کرتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اے یو آصف نے آج عامر سلیم خان کی تعزیتی نشست میں کیا۔ یہ تعزیتی اجلاس عالمی اردو ٹرسٹ (رجسٹرڈ) نئی دہلی کی جانب سے سینئر صحافی عامر سلیم خان (مدیر ہمارا سماج) [نئی دہلی] کی یاد میں آل انڈیا مجلس مشاورت، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی کی آفس میں منعقد کیا گیا تھا۔ مولانا محمد مبارک قاسمی نے تلاوتِ قرآن کریم سے اس مجلس کا آغاز کیا۔ہمارا سماج کے چیف ایڈیٹر خالد انور نے کہا کہ عامر سلیم خان میرے ملازم نہیں بلکہ میرے ساتھی تھے، میں نے ان کے بچوں کے کفالت کی ذمہ داری لی ہے۔ عامر سلیم خان کے لیے ہماری بہترین خراجِ عقیدت یہ ہوگی کہ ہم لوگ ’روزنامہ ہمارا سماج’کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنائیں۔ یو این آئی کے سابق ایڈیٹر عبدالسلام عاصم نے کہا کہ عامر سلیم خان نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ ہم لوگ خبر سے نظر کی طرف چلے گئے ہیں، ہمیں نظر سے خبر کی طرف واپس جانا ہے۔ اس جملے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ خبریں نظریات سے آلودہ ہوچکی ہیں، انہیں دوبارہ خبر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔اردو روزنامہ قومی بھارت کے ایڈیٹر ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے کہا کہ موت کا قرآنی فلسفہ یہی ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ عامر سلیم خان سے میں نے "چونکہ” اور "تاہم” دو الفاظ اور ان کے درست استعمال سیکھے۔ روزنامہ سیاسی تقدیر، کلکتہ کے سابق ایڈیٹر شعیب رضا فاطمی نے کہا کہ اردو اخبارات میں ایکسکلوزیو خبریں لکھنے کاہنر اور ملکہ صرف عامر سلیم خان کو تھا، عامر سلیم خان کی اس کمی کو آسانی سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ زبیر خان سعیدی نے کہا کہ 2019ء میں ہم نے عامر سلیم خان کے ساتھ ایران کا دورہ کیا تھا، میں نے دیکھا کہ اس پورے دورے میں عامر سلیم خان لیکچر سننے، نوٹ بنانے اور سوالات کرنے میں بالکل بھی نہیں جھجھکتے تھے۔ روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کے صحافی عبدالنور شبلی نے کہا کہ عامر سلیم خان ہر طرح کے چھوٹے سے چھوٹے پروگرام میں بذاتِ خود شریک ہوکر خبریں لکھا کرتے تھے، وہ اپنے چھوٹوں پر ہمیشہ مشفقانہ رویہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر اطہر نے کہا کہ ہم لوگوں نے عامر سلیم خان کو ان کی تفتیشی خبروں کے عوض کچھ رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے بالکل صاف صاف منع کردیا اور ایک بھی روپیہ نہیں لیا۔سلیم امروہوی نے کہا اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ کہنے کو تو بہت ساری باتیں ہیں، لیکن میں صرف ایک شعر پر اکتفا کروں گا۔ برف کا کام پگھلنا ہے، پگھل جاتی ہے۔روز دیوار کی ایک اینٹ نکل جاتی ہے۔سیاسی تقدیر کے چیف ایڈیٹر محمد مستقیم خان نے کہا کہ عامر سلیم خان کی وفات بے وقت ہوگئی، عامر سلیم خان کے ساتھ میرے بتیس سال کے دوستانہ تعلقات تھے، عامر سلیم خان ایک بہترین انسان تھے۔ سینئر صحافی اور روزنامہ انقلاب پٹنہ کے سابق ایڈیٹر احمد جاوید نے بتایا کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ملازمت کے دوران میں نیوز ایڈیٹر تھا اور عامر سلیم خان رپورٹر تھے، لیکن پھر بھی ہمارے درمیان کبھی تلخی اور شکر رنجی نہیں آئی۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے موجودہ صدر نوید حامد نے کہا کہ عامر سلیم خان بہت ہی خود دار شخص تھے۔ وہ اکثر وبیشتر ملی امور میں میری رائے ضرور لیا کرتے تھے۔ عالمی اردو ٹرسٹ (رجسٹرڈ) نئی دہلی کے روحِ رواں ایڈوکیٹ عبد الرحمٰن نے کہا کہ جس شخص سے آپ محبت کریں وہ اگر گزر جائے تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے، لیکن جو شخص آپ سے محبت کرے وہ اگر فوت ہوجائے تو تکلیف بھی دوبالا ہوجاتی ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ عامر سلیم خان نے ایک ناول بھی لکھا ہے، جسے عنقریب شائع کیا جائے گا۔ روزنامہ ہمارا سماج کے رپورٹر اور عامر سلیم کے ساتھی منہاج احمد قاسمی نے اپنا تعزیتی پیغام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دفتر میں عامر سلیم خان چارجنگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتے تھے، ہم سب آپس میں بہت ہنسی خوشی سے کام کیا کرتے تھے۔ عامر سلیم خان کے انتقال کے بعد اب دفتر میں ہمارا بالکل بھی من نہیں لگتا۔ واضح رہے کہ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض چوتھی دنیا کی ایڈیٹر محترمہ ڈاکٹر وسیم راشد نے انجام دیا۔ اس پروگرام میں سینئر وکیل اور مختلف اخبارات و رسائل کے کالم نگار عبد الرحمٰن، سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر قاسم سید، سینئر صحافی اور کالم نگار مظفر حسین غزالی، ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی، سید عنین ، ڈاکٹر نثار احمد، نور اللہ خان، عبید سنابلی، بابر اعظم سنابلی، محمد علم اللہ، اشرف علی بستوی اور دوسرے بہت سارے سماجی و سیاسی لوگوں نے شرکت کی۔