نئی دہلی۔27جنوری:
اردو اکادمی دہلی کی جانب سے اکادمی کے قمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم میں ’’شامِ افسانہ‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کی۔پروگرام کا باضابطہ آغاز مہمانوں کو گلدستہ پیش کرکے کیا گیا۔ شامِ افسانہ کے اختتام پر پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کہاکہ ان پانچ افسانوں نے تحیر کی فضا قائم کردی ہے۔ان پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔ ان افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ افسانہ منضبط فن پارہ ہوتا ہے، جس پر طبع آزمائی آسان نہیں۔ رخشندہ روحی کا افسانہ بہت شاندار تھا۔ شہریار کا افسانہ کافی بے باک تھا اور ضبط تحریر میں لانے کی بہترین مثال ہے۔نعیمہ جعفری پاشا کا افسانہ زہریلی دھوپ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیوں کہ اس میں لاجواب فنکاری کا مظاہرہ کیا گیاہے۔طالب رامپوری کا واقعی جمالیاتی بیانیہ تھا۔ جن افسانوں میں جمالیاتی حس کو محسوس کیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس نوعیت کے افسانے بہت کم لکھے جارہے ہیں۔
قبل ازیں اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے شرکا اور افسانہ نگاروں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے مزید کہاکہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی توجہ کے سبب ہی اردو اکادمی ،دہلی مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس نوعیت کے معیاری پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔ وائس چیئرمین نے 30جنوری اور3فروری کو ہونے والے ’مشاعرہ جشن جمہوریت‘ کا بھی اعلان کیا۔
محفل افسانہ میںپروفیسر جی آر سیدنے ’’ٹرانسفر‘‘، طالب رامپوری نے ’’دل کے کسی کونے میں‘‘،نعیمہ جعفری پاشانے ’’زہریلی دھوپ‘‘، رخشندہ روحی نے ’’بڑا آدمی‘‘ اور ڈاکٹر پرویز شہریارنے ’’گوسپ گرل‘‘عنوانات کے تحت اپنے افسانے پیش کیے۔جب کہ نظامت کے فرائض نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ڈاکٹر نورین علی حق نے انجام دیے۔ اس موقع پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر جی۔آر۔ سید کے ناول ’’ ڈھولی دگڑو ڈوم‘‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا جو کورونا وبا کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔
پروگرام میں دہلی کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں طلبا اور طالبات بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ اردو اکادمی، دہلی کی گورننگ کونسل کے اراکین میں جاوید رحمانی، اسرار قریشی وغیرہ نے شرکت کی۔
محفل افسانہ میںپروفیسر جی آر سیدنے ’’ٹرانسفر‘‘، طالب رامپوری نے ’’دل کے کسی کونے میں‘‘،نعیمہ جعفری پاشانے ’’زہریلی دھوپ‘‘، رخشندہ روحی نے ’’بڑا آدمی‘‘ اور ڈاکٹر پرویز شہریارنے ’’گوسپ گرل‘‘عنوانات کے تحت اپنے افسانے پیش کیے۔جب کہ نظامت کے فرائض نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ڈاکٹر نورین علی حق نے انجام دیے۔ اس موقع پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر جی۔آر۔ سید کے ناول ’’ ڈھولی دگڑو ڈوم‘‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا جو کورونا وبا کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔
پروگرام میں دہلی کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں طلبا اور طالبات بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ اردو اکادمی، دہلی کی گورننگ کونسل کے اراکین میں جاوید رحمانی، اسرار قریشی وغیرہ نے شرکت کی۔
تصویر میں دائیں سے: اسرار قریشی، ڈاکٹر جی۔آر۔ سید، حاجی تاج محمد، پروفیسر معین الدین جینا بڑے، جاوید رحمانی ، ڈاکٹر نورین علی حق اور مستحسن احمد۔
نئی دہلی۔27جنوری:
اردو اکادمی دہلی کی جانب سے اکادمی کے قمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم میں ’’شامِ افسانہ‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کی۔پروگرام کا باضابطہ آغاز مہمانوں کو گلدستہ پیش کرکے کیا گیا۔ شامِ افسانہ کے اختتام پر پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کہاکہ ان پانچ افسانوں نے تحیر کی فضا قائم کردی ہے۔ان پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔ ان افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ افسانہ منضبط فن پارہ ہوتا ہے، جس پر طبع آزمائی آسان نہیں۔ رخشندہ روحی کا افسانہ بہت شاندار تھا۔ شہریار کا افسانہ کافی بے باک تھا اور ضبط تحریر میں لانے کی بہترین مثال ہے۔نعیمہ جعفری پاشا کا افسانہ زہریلی دھوپ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیوں کہ اس میں لاجواب فنکاری کا مظاہرہ کیا گیاہے۔طالب رامپوری کا واقعی جمالیاتی بیانیہ تھا۔ جن افسانوں میں جمالیاتی حس کو محسوس کیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس نوعیت کے افسانے بہت کم لکھے جارہے ہیں۔
قبل ازیں اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے شرکا اور افسانہ نگاروں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے مزید کہاکہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی توجہ کے سبب ہی اردو اکادمی ،دہلی مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس نوعیت کے معیاری پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔ وائس چیئرمین نے 30جنوری اور3فروری کو ہونے والے ’مشاعرہ جشن جمہوریت‘ کا بھی اعلان کیا۔
محفل افسانہ میںپروفیسر جی آر سیدنے ’’ٹرانسفر‘‘، طالب رامپوری نے ’’دل کے کسی کونے میں‘‘،نعیمہ جعفری پاشانے ’’زہریلی دھوپ‘‘، رخشندہ روحی نے ’’بڑا آدمی‘‘ اور ڈاکٹر پرویز شہریارنے ’’گوسپ گرل‘‘عنوانات کے تحت اپنے افسانے پیش کیے۔جب کہ نظامت کے فرائض نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ڈاکٹر نورین علی حق نے انجام دیے۔ اس موقع پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر جی۔آر۔ سید کے ناول ’’ ڈھولی دگڑو ڈوم‘‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا جو کورونا وبا کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔
پروگرام میں دہلی کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں طلبا اور طالبات بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ اردو اکادمی، دہلی کی گورننگ کونسل کے اراکین میں جاوید رحمانی، اسرار قریشی وغیرہ نے شرکت کی۔
محفل افسانہ میںپروفیسر جی آر سیدنے ’’ٹرانسفر‘‘، طالب رامپوری نے ’’دل کے کسی کونے میں‘‘،نعیمہ جعفری پاشانے ’’زہریلی دھوپ‘‘، رخشندہ روحی نے ’’بڑا آدمی‘‘ اور ڈاکٹر پرویز شہریارنے ’’گوسپ گرل‘‘عنوانات کے تحت اپنے افسانے پیش کیے۔جب کہ نظامت کے فرائض نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ڈاکٹر نورین علی حق نے انجام دیے۔ اس موقع پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر جی۔آر۔ سید کے ناول ’’ ڈھولی دگڑو ڈوم‘‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا جو کورونا وبا کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔
پروگرام میں دہلی کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں طلبا اور طالبات بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ اردو اکادمی، دہلی کی گورننگ کونسل کے اراکین میں جاوید رحمانی، اسرار قریشی وغیرہ نے شرکت کی۔
تصویر میں دائیں سے: اسرار قریشی، ڈاکٹر جی۔آر۔ سید، حاجی تاج محمد، پروفیسر معین الدین جینا بڑے، جاوید رحمانی ، ڈاکٹر نورین علی حق اور مستحسن احمد۔