کانپور ۲۵؍ جولائی ۲۰۲۳ء
مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور کے صدر اور جمعیۃ علماء کے ریاستی نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے آندھرا پردیش وقف بورڈ کے ذریعہ قادیانیوں کے سلسلے میں قائم کردہ موقف کو درست ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی شخص کو مسلمان ہونے کیلئے جن بنیادی عقائد کو تسلیم کرنا لازمی ہے ان میں عقیدہ ختم نبوت کلیدی حیثیت رکھتا ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا، یہ روز اول سے پوری امت مسلمہ کا متفقہ موقف ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی وزیر سمرتی ایرانی صاحبہ کا بیان کم علمی پر مبنی اور لائق تردید ہے۔ مولانا عبداللہ قاسمی نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید محمود مدنی کو اس سلسلے میں واضح موقف اختیار کرنے اور پوری امت مسلمہ کی ترجمانی کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ مولانا نے جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر کے حوالہ سے کہا کہ وقف بورڈ مسلمانوں کی اوقاف اور ان کے مفاد کی حفاظت کے لیے قائم کیا گیا ہے، جیسا کہ وقف ایکٹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس لیے وہ کمیونٹی جو مسلمان نہیں ہے، اس کی پراپرٹی اور عبادت گاہیں وقف بورڈ کے دائرے میں نہیں آتے، اسی کے مدنظر 2009ء میں آندھر ا پردیش وقف بورڈ نے جمعیۃ علماء آندھراپردیش کی نمائندگی پر یہ موقف قائم کیا تھا، وقف بورڈ نے فروری 23ء کے اپنے بیانیہ میں اسی موقف کا اعادہ کیا ہے ۔
مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے بتلایا کہ اس مسئلہ پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے نہایت واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے، جمعیۃ نے کہا ہے کہ دین اسلام کی بنیاد دو اہم عقیدوں پر ہے۔ (1) توحید، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنی ذات وصفات میں ایک ماننا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دینا (2) رسالت، یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے رسول اور آخری نبی ہیں، آپ پروحی و نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور آپ کی شریعت آخری اور مکمل شریعت ہے۔ یہ دونوں عقیدے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں بھی شامل ہیں۔
ان اسلامی عقیدوں کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی نے ایسا موقف اختیار کیا جو عقیدہ ختم نبوت کے سراسر خلاف ہے۔ اس اصولی اور واقعی اختلاف کی موجودگی میں قادیانیت کو اسلامی فرقوں میں شمار کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے اور امت اسلامیہ کے تمام ہی مکاتب فکر اس فرقہ کے غیر مسلم ہونے پر متفق ہیں۔ اس سلسلے میں معروف اسلامی تنظیم ’رابطہ عالم اسلامی‘نے اپنے اجلاس 6؍ تا 10؍ اپریل 1974ء میں ایک سو دس ملکوں سے آئے ہوئے مسلم تنظیموں کے نمائندوں کے اتفاق رائے سے قادیانیت کے متعلق تجویز منظور کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ یہ گروہ اسلام سے خارج اور مسلم دشمن ہے۔
اس کے علاوہ ماضی میں مختلف عدالتوں نے قادیانی کے سلسلے میں حکم جاری کیاہے۔ 1935ء میں بہاولپورعدالت کا فیصلہ، 1912ء میں مونگیر کے سب جج کی طرف سے مسلمانوں کی مسجدوں میں مرزائیوں کے داخلہ پر پابندی، 1974ء میں متحدہ عرب امارات کی عدالت عالیہ کی طرف سے قایانیوں کو ملک بدر کر دینے کی ہدایت، اسی طرح 1937ء میں ماریشس کے چیف جسٹس کے ذریعہ مرزائیوں کے غیرمسلم ہونے کا فیصلہ صادر کیا گیا۔
مولانا عبداللہ قاسمی نے بتلایا کہ جس وقت تمام ہندوستانی ایک پیج پر کھڑے ہوکر انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اس موقع پر مرزا غلام احمد قادیانی نے اِن مجاہدین آزادی کے خلاف انگریزوں کی حمایت اور ظالم و قابض گورنمنٹ سے وفاداری کا اعلان کیا تھا۔ ایسے لوگوں کیلئے مرکزی وزیر کا حالیہ بیان صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو مجروح کرنے والا ہے۔