یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر شے فانی ہے یہاں کسی چیز کو بھی دوام نہیں،ہم صبح و شام بچشمِ خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ کوئی آرہا ہے تو کوئی جا رہا ہے،آنے جانے کا یہ سلسلہ روز اول سے جاری ہے اور آخری دن تک جاری رہے گا انہیں جانے والوں میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جس کا پر ہونا بہت مشکل ہوتا ہے اور قوم و ملت کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے،ایسی ہی ایک قابلِ قدر معروف شخصیت قاری محمد وسیم خاں لکھنوی کی تھی جو تجوید و قرآت میں اپنی امتیازی شان و زبردست فنی کمال کی بناء پر علمی،ادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ان کا شمار تجوید و قرآت کی معروف درسگاہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ کے ان قابلِ فخر و مایہ ناز فرزندوں میں ہوتا تھا جنہوں نے فرقانیہ کو عالمی سطح پر منفرد شناخت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قاری صاحب کی پیدائش لکھنؤ میں 1946 میں ہوئی کم عمری میں ہی ان کے والد نے انہیں مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں داخل کر دیا جہاں انہوں نے ناظرہ حافظ عبد الرحمن کے پاس اور حفظ قرآن حافظ عبد الشکور کی نگرانی میں مکمل کیا،تکمیل حفظ کے بعد روایت حفص میں قاری محمد الطاف خاں کے پاس داخلہ لیا پھر اس کے بعد مولانا قاری ضمیر الدین کے پاس سبعہ و عشرہ مکمل کیا پھر فراغت کے بعد 1966 میں مدرسہ فرقانیہ میں ہی شعبہ قرآت سے وابستہ ہو کر تدریسی فرائض انجام دینے لگے،رفتہ رفتہ قاری صاحب کی صلاحیت نکھر کر سامنے آنے لگی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ فن تجوید و قرآت کے ایک باکمال و نامور قاری کے طور پر ملک و بیرون ملک کافی شہرت و مقبولیت حاصل کی۔قاری صاحب کو فن تجوید و قرآت میں غیر معمولی قدرت حاصل تھی،ان کا شمار ہندوستان کے بلند پایہ و ہر دلعزیز قاریوں میں ہوتا تھا،انہوں نے تقریباً 47 بار بیرون ملک کا سفر کیا جس میں ایران،ملیشیا،لیبیا،مصر،سعودی عرب وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ہندوستان میں منعقد ہونے والے مظاہرہ قرآت کے بڑے بڑے پروگراموں میں قاری صاحب کی موجودگی جلسہ کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی وہ جب تلاوت کرتے تو ایک سماں بندھ جاتا اور ہزاروں کے مجمع میں سناٹا چھا جاتا تھا فن تجوید کے تمام لہجوں پر جو عبور قاری صاحب کو حاصل تھا اس میں وہ اپنی مثال آپ تھے،جس لہجہ میں بھی پڑھتے اس کا پورا حق ادا کر دیتے تھے بلا شبہ آپ کی شخصیت قابل رشک شخصیت تھی قدرت نے انہیں بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا،آپ ایک اچھے قاری کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر و کاتب بھی تھے آپ بڑے بااخلاق،ملنسار اور بہت ہی نفیس طبیعت کے مالک تھے ان کی مشہور و مقبول شخصیت کے پیش نظر طلباء دور دراز سے ان کے پاس تحصیل فن کے لئے حاضر ہوتے اور وہ بھی اپنے شاگردوں کو آگے بڑھانے کے لئے ہمیشہ کوشاں نظر آتے،آپ کے شاگر ملک و بیرون ملک آج بھی تجوید و قرآت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ان میں ملک و ملت کی قابل قدر علمی،ادبی شخصیتیں بھی شامل ہیں،یقینا یہ قاری صاحب کے حق میں صدقہ جاریہ ہے۔1981 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں 63 ملکوں کے مابین ایک عالمی مقابلہ قرآت کا انعقاد ہوا تھا جس میں قاری صاحب نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اس میں آپکو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بدست انعام سے بھی نوازا گیا تھا،1973 میں ملیشیا میں ہونے والے عالمی مقابلہ قرآت میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی،1981 آیت اللہ خمینی کی دعوت پر ایران تشریف لے گئے،1988 میں مقابلہ قرآت میں بحیثیت حکم ملیشیا تشریف لے گئے،1992 میں عمرہ کے لئے آپ تشریف لے گئے تو جدہ میں آپ کے اعزاز میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا اور براہ راست اس کو ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا،مظاہرہ قرآت کے پروگراموں کے علاوہ دوردرشن ریڈیو پر بھی آپ کی تلاوت بارہا نشر کی جاتی تھی،لہجوں پر مضبوط گرفت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مصر کی ایمبیسی میں ایک محفل قرآت میں ایک مصری قاری نے مصری لہجہ میں قرآن مجید کا ایک رکوع پڑھا اس کے بعد جب قاری وسیم صاحب کو دعوت دی گئی تو ان مصری قاری صاحب نے جہاں تک پڑھا تھا اسکے آگے سے قاری صاحب نے پڑھنا شروع کیا اور وہ بھی مصری لہجہ ہی میں پڑھا تو سارے مصری قاری حیران رہ گئے۔قاری صاحب کو ہندوستان کے بڑے بڑے مدارس میں تدریس کی دعوت دی گئی آپ نے بنارس،ممبئی میں بھی تدریسی خدمات انجام دی ہیں،آفریقہ سے جب دعوت نامہ آیا تو بہت غور و فکر کے بعد وہاں گئے لیکن کچھ ماہ بعد ہی واپس آگئے،وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ وطن عزیز کے علاوہ کہیں اور قرآن پاک کی خدمت انجام دوں،آپ نے تقریباً 52 برس قرآن مجید کی خدمت کی،مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں بھی آپ نے تدریسی فرائض انجام دئے۔2016 میں جب قاری صاحب مدرسہ معین الاسلام دریاباد تشریف لائے اس وقت میری بالمشافہ ملاقات ہوئی قاری صاحب کی تلاوت سے میں بیحد متاثر ہوا اس کے بعد ہی سے قاری صاحب سے اخذ و استفادہ کا خیال پیدا ہوا اور پھر 2017 میں آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا،مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے قاری صاحب سے کسب فیض کیا۔آج قاری صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی شخصیت،ان کی گرانقدر خدمات ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے،آپ رحلت فن تجوید و قرآت کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے،آپ کی وفات سے سرزمین لکھنؤ ایک معروف باکمال قاری سے محروم ہو گئی،10 دسمبر 2023 کو صبح قریب 8:30 بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔آپکی نماز جنازہ عصر کے بعد عالیہ عرفانیہ میں مولانا خالد ندوی غازیپوری کی اقتدا میں ادا کی گئی اور عیش باغ قبرستان میں مغرب سے قبل ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں آپ کی تدفین عمل میں آئی،خدائے تعالیٰ سے دعا ہے کہ قاری صاحب کی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔آمین۔