واشنگٹن(ہ س)۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں ایک ہفتے کے اندر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بات میری لینڈ میں اینڈروز مشترکہ فضائی اڈے کے رن وے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ٹرمپ نے بتایا کہ امریکہ اس وقت محصور غزہ کی پٹی کے حوالے سے ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات کر رہے ہیں اور امید ہے کہ آئندہ دنوں میں ہم معاملے کو سلجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ ایک ایسے مجوزہ معاہدے کی حمایت کر رہا ہے جس کے تحت 60 دن کے لیے جنگ بندی کی جائے گی۔ اس میں مرحلہ وار قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا بعض مخصوص علاقوں سے انخلا، اور ایسے مذاکرات کی بحالی شامل ہے جن کا مقصد مستقل بنیادوں پر تنازع کا خاتمہ ہو۔جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ یوکرین کو پیٹریاٹ” فضائی دفاعی نظام بھیجیں گے۔داخلی امور کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ امریکی مرکزی بینک (فیڈرل ریزرو) کے سربراہ جیروم پاول اپنے عہدے سے استعفا دے دیں گے۔ ٹرمپ کے بقول، اگر وہ مستعفی ہو جائیں تو یہ ایک زبردست بات ہو گی۔ مجھے امید ہے کہ وہ استعفا دے دیں گے، اور انھیں استعفا دے دینا چاہیے، کیونکہ ان کا عہدے پر رہنا اس ملک کے لیے اچھا نہیں۔دوسری طرف، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے محصور غزہ کی پٹی میں جنگ بندی مذاکرات کے حوالے سے امید ظاہر کی ہے۔ اتوار کے روز انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اسی روز نیو جرسی میں اعلیٰ قطری حکام سے ملاقات کریں گے، جو کلب ورلڈ کپ کے فائنل کے موقع پر ہو گی۔یہ بیانات اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے اعلان کے بعد سامنے آئے، جس میں انھوں نے کہا کہ حماس نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے، حالانکہ تل ابیب نے وِٹکوف کی تجویز اور ثالثوں کی ترامیم کو قبول کر لیا تھا۔ نیتن یاہو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حماس کسی بھی معاہدے کو مسترد کر دیتی ہے اور غزہ میں اپنی عسکری طاقت کو بڑھانے پر مْصر ہے، جو ان کے مطابق مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔نیتن یاہو نے مزید کہا "ہم اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے پْرعزم ہیں، لیکن ہم حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے اور اس کے خطرات کو روکنے کے عزم پر قائم رہیں گے۔اسرائیل غزہ میں اپنی افواج کی دوبارہ تعیناتی کے لیے "نقشے” پیش کر چکا ہے، جن میں موراغ راہ داری پر قبضہ بھی شامل ہے۔ تاہم، حماس نے ان نقشوں کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ان نقشوں میں ایک رکاوٹ یہ تھی کہ اسرائیلی فوج کو غزہ کی 40 فی صد سے زائد زمین پر موجود رہنے کی اجازت دی گئی تھی، جسے فلسطینی تنظیم نے مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا۔