غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا سلسلہ جاری
نئی دہلی: 17دسمبر:()غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سالانہ بین الاقوامی غالب سمینار بعنوان”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“ کاسلسلہ جاری ہے۔ سمینار پہلے اجلاس کی صدارت دہلی یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر محمد کاظم نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید عالم نے انجام دیے۔ پروفیسر سید احسن الظفر، ڈاکٹر فاضل احسن ہاشمی اور ڈاکٹر نوشاد منظر نے مقالات پیش کیے۔ جب کہ بنگلہ دیش سے تشریف لائے ڈاکٹر پولاک دیوناگ نے بنگلہ دیش میں اردو اور غالب کے تعلق سے اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر صدر اجلاس پروفیسر کاظم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا غالب سمینار کے یہ اجلاس تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ مستقل نئی نسل استفادہ حاصل کر رہی ہے۔ انہوں نے مرزا غالب کی شخصیت پر اپنی رائے رکھتے ہوئے کہاکہ غالب کی مانویت کل بھی تھی اور آج بھی برقرار ہے۔ شاعر صرف شاعر نہیں بلکہ انسان بھی ہوتا ہے اور اس کی نفسیات اس کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے۔
وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا، جس میں کل چار مقالات پیش کیے گئے۔ اس اجلاس کی صدارت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر انور پاشا اور دہلی یونیورسٹی کے سابق ڈین اور سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر ارتضی کریم نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض سعدیہ صدیقی نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں پروفیسر محمد زماں آزردہ، ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹر خالد علوی اور پروفیسر سرور الہدی نے”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“ موضوع کے تحت اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔پروفیسر ارتضی کریم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ غالب کے یہاں الفاظ اور تراکیب کا استعمال عام مفہوم میں ہر گز نہیں ہوتا ہے۔ ان کا ہر لفظ گنجینہئ معنی کا طلسم ہوتا ہے۔ناقدین غالب، شارحین غالب کے اشعار اور ان میں استعمال ہونے والے الفاظ اور تراکیب کی نیرنگنیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بظاہر یہ مصرع ’ہوتا ہے شب و روزتماشا مرے آگے‘۔ میں ہم لفظ تماشا اور شب و روز کو عام مفہوم میں اگر لیں گے تو غالب نے جو معنی آفرینی کی ہے وہاں تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ خوشی کی بات ہے کہ مقالہ نگار حضرات نے اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو اس خوبصورت بین الاقوامی سمینار کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر انور پاشا نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ غالب کو جو اہمیت حاصل ہے اس میں آج بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ غالب اسی طرح سے آج بھی مقبول ہے جس طرح اپنے عہد میں تھا۔ بہت سی باتیں ہیں جو غالب کو ممتاز بناتی ہیں۔ تفہیم غالب کا جو سلسلہ عہد غالب میں شروع ہوا تھا۔ اور آج تک تکمیل کلام غالب کا دعویٰ آج تک کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ آخر یہ صفت کون سی ہے غالب کے یہاں۔ عہد جدید کے حوالے سے غالب آج بھی اسی طرح سے 20ویں صدی میں جدید لگتا ہے۔غالب کا جو انداز بیان ہے وہ انداز فکر کو بھی اپنے اندر شامل کرتا ہے۔ مختلف جہات جو فکر کی ہے، مختلف آواز جو ہے فکر کی وہ غالب کی شاعر ی میں موجود ہے۔ غالب کی شاعری میں جو تنوع ہے،جو تصادم ہے اور جو تضاد ہے وہ شاید دوسرے شاعر کے یہاں نہیں دیکھیں گے۔ غالب کے یہاں تضاد ہے،تصادم ہے اور تنوع ہے اور یہی غالب کو امتیاز عطاکرتا ہے۔
تیسرا اجلاس آن لائن منعقد ہوا۔ جس کی صدارت نوید مسعود نے کی جب کہ ڈاکٹر شعیب رضاخان وارثی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ پروفیسر تحسین فراقی، پروفیسر نجیبہ عارف، ڈاکٹر نوید عباس اور ڈاکٹر جاوید رحمانی نے مقالات پیش کیے۔ آج کے آخری اجلاس کی صدارت کے فرائض پروفیسر زماں آزردہ نے انجام دیے جب کہ نظامت صنہیب اظہار نے کی۔ قدآور نقاد پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر قاضی جمال حسین اور پروفیسر نسیم احمد نے طے شدہ موضوع کے تحت اپنے پرمغز مقالات پیش کیے۔
اجلاس کے اختتام پر صدر اجلاس پروفیسر زماں آزردہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پڑھے گیے مقالات پڑھے گیے۔غالب ایسا شخص ہے جو خود پر ہنستا ہے اور مختلف صورتیں دیکھتا ہے۔دیکھنے کے لیے صرف نظر نہیں چاہئے اس کے لیے روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پروفیسر آزردہ نے فرداً فرداً تمام مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مقالات کے اجلاس کے بعد عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا۔ مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر ایس فاروق نے کی جب کہ نظامت کے فرائض منصور عثمانی نے انجام دیے۔ اس موقع پر بطور مہمان خصوصی محمد محمود احمد(مصر) نے شرکت کی۔ مدعوع شعراء کرام میں ڈاکٹرسید تقی عابدی(کینیڈا)،محمد محمود احمد(مصر)، اظہر عنایتی، منظر بھوپالی، پاپولر میرٹھی، حسن کاظمی، شکیل اعظمی، ڈاکٹر نصرت مہدی، حنا تیموری، سہیل لکھنوی، میکش امروہوی، سریندر شجر، سلیم شیرازی، جاوید مُشیری، ماجد دیوبندی،ملک زادہ جاوید،سلیم امروہوی، معین شاداب، صہیب احمد فاروقی۔
—