مولانا انصار رضا
9716812786
ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ امید کی جارہی تھی کہ گجرات کے چناؤ کی تاریخ بھی مقرر کردی جائے گی لیکن الیکشن کمیشن نے ایک الگ روایت قائم کرتے ہوئے گجرات انتخابات کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا۔دلیل یہ دی گئی کہ ہماچل اسمبلی کی مدت پہلے ختم ہورہی تھی اور گجرات کی بعد میں اس لئے اعلان میں بھی فاصلہ رکھا گےا۔اس کے فوراً بعد دہلی کارپوریشن الیکشن کا بھی اعلان کردیا گےا تمام انتخابات اسی ماہ ےعنی نومبرمیں ہونے والے ہیں لیکن نتائج سب کے لگ بھگ ایک ساتھ ےعنی 8 دسمبر میں ظاہر کئے جائیں گے۔سیاسی حلقے اس پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ گجرات موربی پل حادثے نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ۔وہاں ایک قیامت گذرگئی ۔ریاستی حکومت کے رویے پر سخت نکتہ چینی کی گئی ۔گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ماحول بنا۔عام آدمی پارٹی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ، اس نے موجودہ ریاستی حکومت کی ناکامیوں کا جم کر پروپیگنڈہ کیا اور اپنے لئے فضا سازگار کی ۔دہلی اور پنجاب کی طرح بجلی پانی مفت دینے کا وعدہ کرکے 27 سال پرانی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار کے ایوان میں بظاہر زلزلہ پیدا کردیا۔موربی حاد ثہ متاثرین کے جذبات کا خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش ہوئی لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ کمان نے ’ آپ ‘ کی سرگرمیوںکا کوئی نوٹس نہ لے کر ثابت کردیا کہ پل حادثہ اور عام آدمی پارٹی کی بڑھتی مقبولیت اس کے لئے مسئلہ نہیں ہے۔
حالانکہ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا گراف روز بروز نیچے آرہا ہے ۔گذشتہ اسمبلی انتخابات میں اسے 99 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ 2012 میں اس کے پاس 116 سیٹیں رہی ہیں۔یہاں یہ بھی یاد لانا ضروری ہے کہ گجرات پر بھارتیہ جنتا پارٹی 1995 سے راج کررہی ہے۔کیشو بھائی پٹےل کی قیادت میں 1995 کے اسمبلی انتخابات کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے 121 سیٹیں حاصل کی تھیں اور چھبیل داس مہتا کی سربراہی والی کانگریس 45 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی۔جس دور کی بات ہورہی تھی اس زمانے میں کئی سیاسی جماعتیں اپنی قسمت آزمانے کے لئے اترتی تھیں۔ جنتا دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو مل کر حکومت بھی بنائی ہے ۔آہستہ آہستہ تمام سیاسی جماعتیں منظر سے پس منظر میں چلی گئیں اب کانگریس ہی ایک نمایاں سیاسی جماعت ہے جو بھارتیہ جنتا ہارٹی کے درمیان ہی اہم مقابلہ ہوتا رہتا ہے۔
ریاست میں 182 اسمبلی سیٹیں ہیں ۔ رائے دہندگان کی تعداد 4.93 کروڑ ہے جن میں 11.62 لاکھ نئے ووٹر بھی شامل ہیں۔ رائے دہنداگا کا جائزہ لیا جائے تو ان میں 24 فیصد کولی،15 فیصد پاٹیدار،10 فیصد مسلم،15 فیصد ایس ٹی،7 فیصد ایس سی ،راجپوت5 فیصد ویش 3 فیصداور دیگر 20 فیصد ہیں۔گجرات پہلے مہاراشٹر کا حصہ تھا بعد میں اسے الگ صوبہ بنایا گےا 1962 میں پہلی بار اسمبلی چناؤ کرائے گئے تھے ۔ یہاںزیادہ کانگریس کا دبدبہ رہا لیکن ایمرجنسی کے بعد ہونے انتخابات کے بعد سے کانگریس کی ناقابل تسخیر سیاسی قوت کو زنگ لگنا شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
گجرات کے عوام کا رخ اس بار تبدیلی کی طرف ہے ۔سیاسی مبصرین کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے داخلی انتشار کے سبب ریاست میں ترقیاتی کاموں پر بریک لگا ہوا ہے ۔اسی کا فائدہ اٹھاکر کانگریس اپنی مقبولیت میں اضافہ کررہی تھی ۔ جنوبی ہند میں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے اثرات بھی گجرات پر نمایاں ہونے لگے تھے اور اس بار لگ رہا تھا کہ ریاست سیاسی ماحول کانگریس کے ہاتھ کو مضبوط کردے لیکن عام آدمی پارٹی نے میدان میں اتر کر ایک طرف کانگریس کے خوابوں کو دھندلا کردیا ہے تو دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے اداس خیمے میں ایک بار پھر سے خوشی کی رمق پیدا کردی ہے۔پارٹی کو لگتا ہے کہ ریاست کا جتنا سیکولر ووٹ ہے وہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان تقسیم ہوجائے گا اور باقی بچا 47% فیصد ووٹ اس کی جھولی میں چلا جائے گا۔اس لئے نہ تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنی جماعت کے شدید داخلی انتشار سے فکر مند ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ موربی پل کی قیامت صغریٰ سے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا کانگریس سے مقابلہ آسان رہا ہے لیکن ’ آپ ‘ کی اینٹری اس کے لئے ایک چیلنج سی تھی ۔عام آدمی پارٹی کو پٹخنی دینے کے لئے پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے دہلی کے کالکا جی علاقے میں جھگی جھونپڑی والوں کو فلیٹ تقسیم کراکر دہلی کے کارپویشن چناؤ کی تاریخ کا اعلان کرادیا اور ’ آپ ‘ کے لئے’ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن ‘ےعنی جینے مرنے جیسی صورتحال پیدا کردی ہے۔دہلی میونسپل کارپوریشن پر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کا پوری طرح قبضہ رہا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس بار بھی اسی کی حکومت رہے گی۔اس کی تےاری وہ بہت پہلے کرچکی ہے۔کئی ماہ قبل جب یہاں بدلاؤ کی لہر چل رہی تھی اور یہ لگ رہا تھا کہ اگر آج کارپوریشن کا چناؤ ہوجائے تو عام آدمی پارٹی ایک طرفہ چناؤ جیت جائے گی۔اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی نے نئی حلقہ بندی کا اعلان کرکے انتخابات کو ٹال دیا تھا۔اب نئے طریقے سے دہلی کے وارڈ کی حلقہ بندی کی گئی ہے اور اس طرح کی گئی ہے کہ عام آدمی پارٹی کو میدان میں اترنے کے لئے دانتوں پسینے آجائیں گے۔ بی جے پی کے پالیسی میکرز نے ’ آپ ‘ کو کئی محاذ پر الجھادیا ہے ۔صورتاحال یہ ہے کہ ایک طرف اسے اندرونی انتشار سے مقابلہ کرنا پڑرہا ہے اور دوسری طرف بھاجپا کے آئی ٹی سیل سے ۔واضح رہے کہگذشتہ دنوں ایک بہت بڑا طبقہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس سے الگ ہو کر ’ آپ ‘ میں شامل ہوا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کونسلر بننے کے خواہش مند ہیں۔دوسری طرف ان دعوے داراوں کی بھی طویل فہرست ہے جن سے برسوں پہلے کہا گےا تھا کہ وہ اپنے اپنے وارڈوں میں الیکشن کی تےاری کریں۔منیش سسودیہ اور اروند کجریوال گوکہ بہت شاطر قسم کے سیاست داں ہیں لیکن اہل دانش نے ان کے سامنے ایک ایسی گتھی ڈال دی ہے جس کا سلجھانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔عام آدمی پارٹی کو ٹکٹ کی تقسیم پر ایک ایک قدم پل سراط سے گذرنا ہوگا۔ اس کے بعد بھی باغےوں اور مخالفوں کے گروہ سے بچنا مشکل ہوگا۔دوسری حکمت عملی یہ اپنائی گئی ہے کہ دہلی میں فضائی آلودگی پر ’ آپ ‘ کو گھےرلیا گےا ہے یہ کام اس کا آئی ٹی سیل کررہا ہے۔پہلے دہلی کی حکومت اکتوبر نومبر میں فضا کے کثیف ہونے پر پنجاب سرکار کو کوسا کرتی تھی لیکن اس بار پنجاب میں بھی عام آدمی پارٹی کا اقتدار ہے۔عام آدمی پارٹی نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ کسانوں کو پرالی کا خاتمہ کرنے کے لئے جدید مشینری اور کیمیائی مادہ مفت تقسیم کرے گی جس کی وجہ سے انہیں پرالی کو کھیتوں سے خارج کرنے کے لئے اسے جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اس بار بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ دھنواں اور زہریلا مادہ دہلی کی فضا میں محسوس کیا گےا ۔پنجاب اور دہلی حکومت کے پاس اس ناکامی کا کوئی جواب نہیں ہے۔مان تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچانے کی کوشش میں غلطاں ہیں کہ ان کی حکومت کو ابھی آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں۔اگلے سال اس پر قابو پانے کے لئے ان کے پاس وافر وقت ہوگا ۔کیجریوال کہتے ہیں کہ چاول کی فصل کے بعد کسانوں کے پاس محض دس بارہ دن کا ہی وقت ہوتا ہے اس لئے پرالی کو جلانے کے علاوہ ان کو ئی چارہ کار نہیں رہتا۔ہم نے مشینیں فراہم کرادی تھیں۔کیمکل بھی مہیا کرادیا تھا لیکن اس کی تقسیم میں کچھ گڑبڑی ہوئی ہے جو آئندہ برس نہیں ہوگی۔ آئی ٹی سیل یہ کہہ کر ان کے بیان کی دھول اڑا دیتا ہے کہ ” کجریوال جی گےان نہیں ،سمادھان کی بات کرو“۔بھارتیہ جنتا پارٹی ان کی سابقہ اور موجودہ بیان بازی کو ہی اہم ایشو بنا کر پیش کررہی ہے ۔دہلی اور پنجاب حکومتوں کے پاس دفاع کرنے کے لئے صرف تقریر یں ہیں جن میں مہنگائی،بے روزگاری وغےرہ جیسے موضوعات ہیں جو اتنے بوسیدہ ہوچکے ہیں کہ اب ان پر کوئی بھی کان دھرنے کو تےار نہیں ہے۔دہلی میں کوڑے کے پہاڑ سمیت کارپوریشن کی کچھ ناکامیوں کو بھی چناوی مدعا بنایا جارہا ہے لیکن یہ سب فضائی آلودگی کے سامنے بہت ننھے منھے سے ایشو بن کر رہ جاتے ہیں۔ےعنی گجرات چناؤ سے عام آدمی پارٹی کو باہر رکھنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ’ آپ ‘ کی ٹےم کو دہلی میں ہی الجھائے رکھنے کی پالیسی بنائی ہے۔پارٹی کا خیال ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی ناکامی کا فائدہ گجرات میں اٹھایا جائے گا جس کے سبب پارٹی اپنی لہر بنانے میں کامیاب ہوجائے گی اور کانگریس کو آسانی سے ہراکر ایک بار پھر گجرات میں اپنی حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرلے گی۔