نئی دہلی،پریس ریلیز،ہمارا سماج: برسوں سے ملک کےعازمین حج کو مختلف طریقوں سے سہولت دلانے کےلیے کوشاں رہنے والے حج آف انڈیا کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نے آج مرکزی حکومت کے وزارت حج سے سخت مطالبہ کیاہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل نو حج ایکٹ 2002 اور 29اپریل 2024 کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق کی جائےجس سے ملک کے عازمین حج کو جوکچھ برسوں سے سہولتیں نہیں مل رہی ہیں وہ ساری سہولتیں واپس مل جائیں مسٹر اعظمی نے اس سلسلہ میں آج ایک خط وزارت کے سکریٹری کو 22.6.2024 کو کمیٹی کی تشکیل کےلیے ایک خط وزیر اعظم نریندر مودی ، اور وزیراقلیتی فلاح وبہبود کو اور وزارت کے سکریٹری کو لکھا تھا اس کا جواب 17.12.2024 کو وزارت کی طرف سے ہمیں بھیجا گیاہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اسٹیٹ کمیٹیاں جگہ جگہ نہیں تھیں اس لیے پہلےکچھ زون کا الیکشن نہیں ہوسکا اب ۳۱ مارچ کو حج کمیٹی آف انڈیا مدت ختم ہورہی ہے اور اس کے بنانے کیاعمل جاری ہے۔مسٹر اعظمی نے اپنے اس خط کے جواب میں لکھا ہے کہ حج ایکٹ کی دفعہ 17 میں اسٹیٹ حج کمیٹی بنوانا اور9 ممبران کا الیکشن کرانا یہ ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے مسٹراعظمی نے ساتھ ہی ساتھ خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ 27مارچ 2023 کو چیف جسٹس آف انڈیا کے بنچ نے اپنے فیصلہ میں یہ لکھاتھا کہ سیکشن 17 میں یہ کام مرکزی حکومت کا ہے اس فیصلہ کے بعد بھی اب تک میرے علم میں بہت سی اسٹیٹ حج کمیٹیوں کی تشکیل نہیں ہے جو وزارت کے غیر ذمہ داری ہے اور حج ایکٹ اور سپریم کو رٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی بھی ہے۔مسٹراعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ اکتوبر 2021 میں صوبائی حج کمیٹی اور مرکزی حج کمیٹی کی تشکیل کے لیے مفاد عامہ کی جو ہم نے عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی تھی صوبائی حج کمیٹیاں تو تقریباً سپریم کورٹ کے سخت دخل کے بعد بن گئیں جس کی ایک مثال ہے کہ گجرات میں تقریبا 20.22 سال بعد اسٹیٹ حج کمیٹی بنائی گئی اس بیچ مرکزی حج کمیٹی بھی 7.8 رکنی وزارت نے بناکر خانہ پری کی اور عوام اور عدالت کو حکومت مستقل گمراہ کرتی رہی مسٹراعظمی نے افسوس کے ساتھ کہا کہ 3 برسوں کے اندر 16 بار سماعت اس معاملہ کی ہوئی اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے کس طرح ٹال مٹول ہوتا رہا اور 29 اپریل 2024 کے فیصلہ میں یہ تھا کہ 31 اگست تک اس طرح کمیٹی بنالی جائے مگر آج تک ایکٹ 2002 اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق حج کمیٹی آف انڈیا وزارت نے نہیں بنائی اب 31 مارچ کےپہلے حج کمیٹی کی تشکیل کی بات حکومت کررہی ہے جبکہ ایکٹ کے مطابق کمیٹی کی مدت ختم ہونے سے 4 ماہ پہلے ہی نئی کمیٹی کی تشکیل مکمل کرلینی چاہیے تھی۔ ہم نے اس سلسلے میں وزیر اعظم اور وزیر اقلیتی فلاح وبہبود اور وزارت کے سکریٹری کو تفصیلی خط لکھ کر مطالبہ کیاتھا جس کا جواب 17 دسمبر کو مختصر طور پر ہمیں ملا ہے۔مسٹر اعظمی نے خط میں خصوصی طور سےمؤدبانہ وزارت سے گزارش کی ہے کہ جو 3 مسلم قانون داں کا کوٹہ ہے 2 سنی اور ایک شیعہ کا اس مسلم قانون داں کےزمرے میں رکھنے والے ممبران سے ان کی ڈگری کا حلف نامہ لازمی طور پرلے لیں کیوں کہ اس زمرہ میں گزشتہ کمیٹیوں میں غلطیاں ہوئی ہیں جس سے حاجیوں کو پریشانیوں کا سامنا رہاہے۔مسٹراعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ 19 رکنی کمیٹی کے ممبران کی میٹنگ کرکےچیئرمین اور 2 وائس چیئرمین کا الیکشن کرایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ تقریباً 30 برسوں سے زائد کی قدیمی روایت ہے کہ 3 سب کمیٹیاں بنتی رہی ہیں ایک انتظامی کمیٹی ایک ایئر چارٹر کمیٹی اور ایک فائننس کمیٹی انہیں 19 ممبران میں بنائی جاتی رہی ہیں اس کا بھی الیکشن اسی وقت ساتھ ساتھ کرا ئےجانے کی قدیمی روایت ہے جسے وزارت کو قائم رکھنی چاہیے۔مسٹراعظمی نے ایک سوال کے جواب میں پرعزم ہوکر کہا کہ حکومت حج کمیٹی سے جانے والے کو قطعی طور سے عازمین کو یتیم نہ سمجھے اور ان کی سہولت کےلیے بنائے گئے نظام کو قائم رکھنے کےلیے ہم نے اپنے رفقا کےساتھ ایک لمبی لڑائی لڑی ہے اورآج بھی زندگی کی آخری سانس تک جدوجہد جاری رہے گی اور حکومت کو عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔