تل ابیب(ہ س)۔جاری جنگ کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کو کم از کم دوسال کے التوا میں ڈال دیا ہے۔ اس امر کا اظہار اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے جرمنی کے اخبار کو انٹرویو کے دوران کیا ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف اپنی کامیابی کا ذکر ایسے موقع پر کیا ہے جب صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کو امریکی حملوں کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ ایران کے پاس زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کی مہلت ہے۔امریکہ جس نے ایران کے خلاف جنگ کے اپنے ارادوں کو ابھی تک اس طرح اخفا میں رکھا ہے کہ دونوں آپشنز جنگ میں شریک ہونے یا نہ ہونے کی باتیں کر رہا ہے جبکہ صدر ٹرمپ اپنی سیکیورٹی سے متعلق ٹیم کے ساتھ کئی اجلاس بھی کر چکے ہیں۔اب ٹرمپ کا تازہ ترین بیان یہ سامنے آیا ہے کہ انہوں نے ایران کو ایک بار پھر دھمکایا ہے کہ ایران کے پاس صرف دو ہفتوں کی مہلت ہے۔ کہ اسی دوران امریکہ حتمی طور پر ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لے گا۔ادھر اسرائیل کی طرف سے ہفتے کے روز بتایا گیا ہے کہ اس کی فضائیہ نے ایران کے خلاف نئے حملوں کی ایک سیریز کا آغاز کیا ہے۔ ان تازہ حملوں میں اسرائیل نے وسطی ایران میں میزائلوں کے بڑے ذخیرے اور میزائل لانچنگ کی جگہوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔اسرائیل کی کوشش ہے کہ جس نے ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے نام پر ایران پر جنگ مسلط کی ہے۔ جوہری تنصیبات کے زیر زمین ہونے کے باعث میزائلوں کی تیاری اور لانچنج کے سسٹم کو بھی نشانے پر رکھے کہ اب تک اسرائیل میں ایران جو بھی تباہی کر رہا ہے انہی میزائلوں کی وجہ سے ہے۔ ویسے بھی جوہری تنصیبات تک موثر بمباری کرنے کے مقابلے میں یہ نسبتا آسان ہدف ہو سکتا ہے۔دوسری جانب ایران جوہری ہتھیاروں کے بنانے سے مسلسل انکار کر رہا ہے البتہ اپنے میزائل پروگرام کو وہ کسی صورت روکنے کو تیار نہیں ہے۔ کہ پچھلی کئی دہائیوں سے سخت پابندیوں کی زد میں رہنے والے ایران کی فضائیہ جدید جہازوں اور ٹیکنالوجی سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے ملکوں میں امریکی فوجی اڈوں اور امریکہ کے زیر اثر حکومتوں کی وجہ سے فضائیہ کے جدید ہونے کے باوجود اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کے لیے اسرائیل کی فضاؤں میں پہنچنا ایران کے لیے تقریبا ناممکن ہوتا۔ اس کا بہترین توڑ ایرانی میزائل کر رہے ہیں۔اسرائیلی وزیر خارجہ نے جرمن اخبار ‘بلڈ ‘ سے انٹرویو میں کہا دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکی اسرائیلی جنگ ایران کے خلاف جاری رہے گی۔ نیز اسرائیل ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے جو بھی کر سکا کرے گا۔ یاد رہے ایران کے خلاف اس جنگ کی اسرائیل کئی برسوں سے تیاری کر رہا تھا۔ تاہم اب صدر ٹرمپ کی حکومت دوبارہ بننے پر اسرائیل نے اسے اپنے لیے بہترین موقع کے طور پر محسوس کیا اور حالات کی سازگاری کو بھی بہترین پا کر ایران پر حملہ کر دیا۔ادھر جرمنی ، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے جمعہ کے روز جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کی ہے اور ایران سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات پھر سے شروع کرے جو اسرائیل کی شروع کردہ جنگ کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ واضح رہے امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کا چھٹا دور طے ہو چکا تھا فریقین اس میں شرکت کے لیے تیار تھے کہ اسرائیل نے ایران پر خوفناک حملے شروع کر کے مذاکراتی عمل کو بھی لپیٹ دیا۔فرانس کے وزیر خارجہ نے اس موقع پر کہا ہم نے ایرانی ہم منصب کو دعوت دی تھی تاکہ انہیں کہیں کہ امریکہ کے ساتھ از سر نو مذاکرات کو شروع کریں۔ نیز اس چیز کا انتظار کیے بغیر مذاکرات شروع کریں کہ اسرائیل جنگ بندی کرے پھر مذاکرات کریں گے۔جین بیروٹ نے کہا اگرچہ جنگ بندی کی ہم بھی امید کرتے ہیں۔ لیکن مذاکرات کو فوری شروع کرنا چاہیے۔ایران کے وزیر خارجہ نے یورپی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کے بعد ‘ این بی سی ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ اس وقت تک مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جب تک ایران کے خلاف جارحیت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔یورپی وزرائے خارجہ کے ساتھ ایرانی مذاکرات کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ایران کو یورپ سے نہیں ہمارے ساتھ بات کرنا ہوگی۔کیونکہ یورپ سے ایران کو کچھ نہیں مل سکتا نہ ہی یورپ ایران کی کوئی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔صدر ٹرمپ نے اس موقع پر یہ بھی کہا وہ اسرائیل سے یہ کہنا نہیں چاہیں گے کہ وہ ایران کو میز پر لانے کے لیے اپنے حملے روک دے۔ کیونکہ جب کوئی جیت رہا ہو تو اسے روکنا مشکل ہوتا ہے کہ تم رک جاؤ۔امریکہ کی ایران کے خلاف جنگ میں شمولیت کا زیادہ امکان ان امریکی بنکر بسٹر بموں کے برسانے کے حوالے سے ہوگا جو کسی اور ملک کے پاس نہیں ہیں۔ انہی بموں کی مدد سے ایرانی جوہری مراکز اور زیر زمین تنصیبات کو تباہ کرنے میں اسرائیل امریکہ کو جنگ میں شامل دیکھنا چاہتا ہے۔ ان میں سب سے اہم جوہری مرکز فوردو کا ہے۔ جس میں یورینیم کی افزودگی کا خاتمہ ضروری ہے۔امریکہ میں کام کرنے والی ایک انسانی حقوق کی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اب تک اسرائیل نے بمباری کر کے 657 ایرانیوں کو قتل کر لیا ہے۔ ان میں ایرانی فوجی سربراہان ، سائنسدان اور اہم لوگ بھی شامل ہیں۔ جبکہ 263 عام ایرانی قتل کیے گئے ہیں۔ ایران کا ابھی تک کہنا ہے کہ اس کے 224 لوگ قتل ہوئے ہیں۔دوسری جانب اسرائیل کا جانی نقصان بہت کم ہے اسرائیل صرف 25 افراد کی ہلاکت کی تضدیق کرتا ہے۔ حیفا میں ایک تازہ ایرانی حملے میں ہسپتال نشانہ بنا اور 19 اسرائیلی زخمی ہوئے۔ ان میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔اسرائیل کی نیشنل پبلک ڈپلومیسی نے اب تک ایران نے اسرائیل پر 450 حملے کیے ہیں ان میں 400 ڈرون حملے بھی شامل ہیں۔مغربی مملک بار ہا ایران کو جوہری پروگرام کے بارے میں انتباہ کرتے رہے ہیں کہ ایران کو اسے تیزی سے آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ خصوصا یورینیم کی بڑی مقدار میں افزودگی ان کے لیے باعث تشویش ہے۔بین الاقوامی جوہری ادارے کا کہنا ہے کہ ایران واحد ملک ہے جو جوہری ہتھیار نہیں چاہتا مگر اس کے پاس ساٹھ فیصد یورینیم ہے۔سی این این سے بات کرتے ہوئے ‘ آئی اے ای اے’ کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا یہ سب مفروضوں پر مبنی باتیں ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے میں اتنا وقت لے گا یا کتنا وقت لے گا۔برطانوی وزیر خارجہ نے صورت حال کی سنگینی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی سطح پر کشیدگی کم ہونے کا انتظار کیا جائے اور پھر مذاکرات کیے جائیں۔ادھر ترکیہ میں ایران کے مسلمان بھائیوں کی تنظیم او آئی سی کا بھی ایک اجلاس ہونے جا رہا ہے۔