حیدرآباد،9؍اگست،: ، ہمارا سماج:صفا بیت المال شاخ بنگلور اور منبر و محراب فاؤنڈیشن انڈیا کے زیر اہتمام ۷ ؍ا گست کو منعقدہ خصوصی اجلاس جو امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب دامت برکاتہم کی صدارت اور مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب کی نگرانی میں منعقد ہوا جو دو اہم عنوانات پر مشتمل رہا ۔واضح ہو کہ مولانا غیاث احمد رشادی صدر صفا بیت المال نے بڑی عرق ریزی سے عام فہم اور سلیس اردو میں عوام الناس کی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے درس کے طرز پر چھ جلدوں اور دو ہزار چار سو دروس پر مشتمل پانچ ہزار صفحات پر مبنی تفسیر بنام عام فہم درس قرآن تالیف کی ہے جس کی رونمائی امیر شریعت کے دستِ مبارک سے ہوئی اور شہر بنگلور و اطراف و اکناف کے ڈھائی سو ائمۂ کرام کو ہدیتہ پیش کی گئی جس کی لاگت چھ لاکھ روپیے سے متجاوز ہے۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی نے قرآن مجید کے حقوق بیان کیے اور ائمۂ کرام و علماء سے کہا کہ وہ اللہ کی اس مقدس کتاب کے پیغام کو عام کریں اور مساجد میں تفسیر قرآن کا روزانہ سلسلہ وار دروس کو جاری رکھیں۔ مسلمانوں کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی اس کتاب میں تدبر کریں اور اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اس کے پیغام کو پھیلائیں۔ مفتی صاحب نے مولانا غیاث احمد رشادی کی تحریک جدید چلو! کچھ تدبیر کریں کچ کام کریں کے پندرہ نکاتی پروگرام کو سراہا اور کہا کہ اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تدابیر کو روبعمل لایا جائے۔ امیر شریعت کرناٹک نے عام فہم درس قرآن کی رونمائی کے بعد فرمایا کہ علماء کرام کو چاہیے کہ دارالعلوم سبیل الرشاد کے بانی بڑے حضرت کی اس اردو کی تکمیل کریں اور معاشرہ سے متعلق مختلف عناوین پر کتابیں تالیف کریں اور عوام الناس کی رہبری کریں۔ امیر شریعت نے فرمایا کہ مولانا غیاث رشادی نہ صرف صفا بیت المال کے صدر ہیں بلکہ وہ صفا بیت العلوم کے بھی صدر ہیں کہ انہوں نے سو سے زائد نافع ،موثر اور مفید کتابیں تالیف کی ہیں اور یہ ساری کتابیں اس لیے مقبول ہوئیں کہ مولانا نے ان کو اخلاص کے ساتھ لکھا۔ علماء کرام کو چاہیے کہ ہر کام اور ہر اقدام سے قبل اپنی نیتوں کا جنازہ لیں اور اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے کریں۔ اس خصوصی اجلاس میں مولانا زین العابدین رشادی صاحب نے بھی شرکت کی اور اپنے خطاب میں یہ کہا کہ جس طرح مولانا غیاث احمد رشادی نے علمی، دینی، رفاہی، فلاحی اور سماجی متعدد خدمات انجام دی ہیں اسی طرح ہمارے دیگر علماء کرام بھی متحرک ہو جائیں اور ملت کے لیے مختلف خدمات کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ مولانا حنیف افسر عزیزی نے فرمایا کہ اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور بڑی نیت اور بڑے ظرف کے ساتھ ایک دوسرے کا عملاً تعاون کریں۔ مولانا عتیق الرحمان ارشد رشادی نے فرمایا کہ مولانا رشادی کی یہ تحریک چلو! کچھ تدبیر کریں کچھ کام کریں در اصل قرآنی آیت فاتقوا اللہ ما استطعتم کے مصداق ہے ۔ہمیں اپنی اسرار و طاقت کے بقدر ملت کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ مولانا شمس الدین رشادی صاحب مہتمم دار البلاغ نے پرجوش انداز میں علماء کرام سے کہا کہ اکثریت ہمیشہ اقلیت کو جذب کرنے اور مدغم کرنے اور ان کے نام کو مٹانے کی کوشش میں ہوتی ہے ایسی صورت میں اقلیت کے سرکردہ افراد اقلیت کی بقاء کی فکر کریں۔ مصر کے اس ماحول میں جہاں اکثریت باطل پرست تھی اور اقلیت حق پرست تھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ ذمہ دارانہ سوال اپنے بیٹوں سے کیا تھا کہ ما تعبدون من بعدی تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے ؟ آج اسی سوال کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس میں مفتی رفیق احمد رشادی، مولانا جواد احمد خان رشادی، مولانا افتخار احمد رشادی، مولانا والی محمد ہارون رشادی، مولانا محمد طاہر رشادی، مولانا ریاض احمد رشادی ،مولانا ہمایوں رشادی اور مولانا ریاض احمد رشادی موجود تھے ۔مولانا غیاث احمد رشادی نے پندرہ نکات کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور علماء کرام اور مساجد کے صدور و دیگر ذمہ دار احباب سے گزارش کی کہ ملک کے ان تشویش ناک حالات میں ہم سب کو اتحاد اور آپسی مضبوط تعلقات کے ساتھ مختلف طبقات کے دین و ایمان کی فکر کرنی ہوگی۔ ہمیں سلم علاقوں کے بے دین افراد پر دینی محنت کرنی ہوگی اور انہیں مساجد سے جوڑنا ہوگا ،نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مراکز نسوان قائم کرنا ہوگا، اسکولی طلباء کے دین و ایمان کی مضبوطی کے لیے ان میں بیسٹ کیرکٹر پروگرامز منعقد کرنے ہوں گے اور بے دین افراد کو دین سے جوڑنے کی تدبیریں کرنی ہوں گی۔ مولانا مفتی محمد رفیق صاحب رشادی نے کہا مولانا غیاث صاحب رشادی کو میں زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں۔ اللہ نے بڑی خوبیاں ان کو عطا کی ہیں، کئی قسم کے کام وہ کر رہے ہیں، حالات کسی بھی طرح کے ہوں وہ حالات کا رونا نہیں روتے بلکہ مسلسل کام کرتے ہیں۔