ثناء اللہ صادق تیمی
سیاسی لیڈروں کی باتیں بالعموم بھروسہ کے قابل نہیں مانی جاتیں۔ ان کی باتیں ہاتھی کے دانت کی مانند ہوتی ہیں کھانے کے کچھ اور دکھانے کے کچھ اور لیکن بعض الفاظ بعض حقائق کی چغلی تو کھا ہی جاتے ہیں۔ اب مودی جی کی نئی تقریر کی بات ہی لے لیں، انہوں نے اپنے پارٹی کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے دو نمایاں باتیں کہی ہیں:
1. مسلمانوں تک پہنچنے کی کوشش کریں، پسماندہ، بوہرہ اور تعلیم یافتہ مسلمانوں تک جائیں اور انہیں پارٹی سے قریب کریں۔
2. فلموں پر غیر ضروری بیان بازی سے گریز کریں، اس سے پارٹی کی ترقیاتی شبیہ متاثر ہوتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کو ایک سال سے تھوڑے ہی دن زیادہ رہ گئے ہیں۔ مودی جی تیسری اننگز کھیلنے کو بے تاب ہیں اور اس سلسلے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہوشیار بھی بہت ہیں، وہ اب تک کمال ہوشیاری سے” پرو ہندو امیج” کے ساتھ ہی” اینٹی مسلم شناخت ”کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے اور اس میں اب تک سو فیصد کامیاب تھے۔ اس معاملے میں انہوں نے بڑی ہی مضبوط پالیسی اختیار کی تھی۔
سب سے پہلے انہوں نے’ کانگریس سے پاک بھارت’ کا نعرہ دیا تھا اور اس میں کامیاب ہوئے تھے، یہ بات معلوم تھی کہ کانگریس کی قیادت میں کسی نہ کسی سطح پر مسلمان بھی نظر آتے ہیں، انہوں نے پوری چابک دستی سے کانگریس کو مسلمانوں کی، یا کم از کم مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی پارٹی بنا کر پیش کیا تھا اور عام ہندوؤں کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے تھے کہ کانگریس مسلمانوں کے لیے اور ہندوؤں کے خلاف کام کرتی ہے اور اس طرح دیکھتے دیکھتے کانگریس اپنے بد ترین دور میں چلی گئی تھی۔ مودی جی جانتے تھے کہ مسلمان اسی کانگریس کی طرف بھاگے گا جس سے اسے تحفظ ملنے کی توقع ہو لیکن جب وہ خود تتر بتر ہو جائے تو مسلمان پھر بٹ بٹا کر کہیں جائے، ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یہ سامنے کا سچ ہے کہ مودی جی کی یہ پالیسی صد فی صد کامیاب رہی۔
ادھر انہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے مسلمان خود کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے پر مجبور ہو اور عام ہندوؤں کو لگے کہ مسلمانوں کو ان کی” اوقات” دکھائی جا رہی ہے۔ اس غرض سے سارے نیوز چینلز کو ہندو مسلم ڈیبیٹ میں لگا دیا گیا، ہر سطح پر مسلمانوں کو زد و وکوب کیا گیا، ان کے گھروں پر بے رحمی سے بلڈوزر چلائے گئے، ان کے مقدس شخصیات کا مذاق اڑایا گیا، آئے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعویداری کی گئی، بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی طرف سے فرقہ وارانہ بیانات آتے رہے اور علامتی طور پر بھی حکومت میں کسی مسلم چہرے کو نہیں رہنے دیا گیا جیسے یہ پیغام بہت واضح انداز میں دیا جا رہا ہو کہ دیکھو ہم نے ‘بابر کی اولاد’ کو نکال باہر کیا ہے!!!!
سنگھ اور مودی جی کا سارا کھیل اچھا چل رہا تھا مگر یکایک راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا نکال کر ان کے منصوبے کو چنوتی دے دی۔ ہوا یوں کہ جیسے جیسے یاترا آگے بڑھی اس کی مقبولیت بڑھتی گئی اور کانگریس کے پھر سے زندہ ہو اٹھنے کا عندیہ ملنے لگا اور ایسا لگنے لگا کہ کانگریس مضبوط ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ مضبوط کانگریس کی طرف مسلمان تیزی سے بھاگے گا اور جب بھاگے گا تو کانگریس کو اس طرح ہرا پانا ممکن نہ ہوگا جیسا پہلے ہرایا گیا ہے، ساتھ ہی بہت سے ناراض ہندو ووٹرز بھی جو مودی سے شکوہ سنج ہیں، کانگریس کو ویکلپ(متبادل) سمجھ کر اس کی طرف بھاگ سکتے ہیں اور ہوں پورا کھیل بگڑ سکتا ہے، اس لیے ڈیمیج کنٹرول ضروری ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ مودی جی کا حالیہ بیان اسی تناظر میں ہے۔
حالانکہ ایک دوسری بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ یہ باتیں صرف زبانی جمع خرچ ہیں اور یہ اس لیے کہی جا رہی ہیں تاکہ عالمی طاقتوں اور سرمایہ کاروں کو یہ بتایا جائے کہ ملک میں خیر سگالی کا ماحول ہے اور کسی بھی جماعت کو کسی بھی طرح سے نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔ مودی جی عالمی سطح پر اپنی تصویر روشن رکھنا چاہتے ہیں ورنہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی سیاسی بھلائی اسی میں ہے کہ فرقہ وارانہ ماحول بنا رہے اور انہیں ہندوؤں کے حق میں کام کرنے والا اور مسلمانوں کو ان کی اوقات بتانے والا لیڈر سمجھا جائے۔
ایک تیسرا زاویہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک مثبت رخ ہے اور اسے سراہا جانا چاہیے۔اگر مودی جی کو ایسا لگ رہا ہے کہ ان کی پارٹی کو مسلمانوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے تو یہ ایک اچھی بات ہے اور اسے مثبت زاویے سے ہی دیکھنا چاہیے۔یوں بھی سیاست میں علاحدگی پسندی کا رجحان روا نہیں سمجھا جاتا۔اس زاویے سے سوچنے والے اہل نظر البتہ یہ بھی مانتے ہیں کہ مودی جی کو ایسے اقدامات بھی کرنے چاہیے جن سے یہ لگے کہ وہ واقعی سچ بول رہے ہیں، کیوں کہ جس طرح اقلیتی طلبہ کے وظائف ختم کیے گئے ہیں اور بطورخاص مسلمانوں کو تفریق جھیلنی پڑی ہے، اس سے تو کوئی اور ہی پیغام جاتا ہے۔
خیر بات جو بھی ہو، ہے دلچسپ۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں کو لا شیء سمجھنے کا نشہ دیر تک نہیں رہ سکتا۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ بڑبولے کیا کریں گے جو ڈنکے کی چوٹ پر مسلمانوں سے ووٹ نہ لینے کی بات کرتے رہے ہیں۔ ایک سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہیکہ کیا وزیر اعظم کی یہ بات سنگھ کے رہنما بھی مانیں گے جو لگاتار اپنا راگ الاپ ر ہے ہیں اور مسلمانوں کو احساس برتری سے نکلنے کا گیان دے رہے ہیں؟ایک بات اور بھی اہم ہے کہ کیا خود وزیر اعظم بھی اپنی ان باتوں پر قائم رہیں گے اور ایسے الفاظ نہیں استعمال کریں گے جن سے براہ راست یا بالواسطہ مسلمان نشانے پر آتے ہوں اور وہ بھی کھلے دل سے مسلمانوں تک پہنچنے کی واقعی کوشش کریں گے؟
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ