ایک طویل عرصہ سے یہ مسلہ زیر بحث ہے کہ آر ایس ایس ملک میں جمہوری اقدار کی دشمن ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر ملک میں ایک مذہب کی حکومت چاہتی ہے ۔لیکن براہ راست اسی ایجنڈے پر چونکہ اس کا انتخاب جیتنا ناممکن ہے اس لئے وہ جمہوری اقدار میں گھس پیٹھ کر کے اسے اتنا کمزور کر دینے کے مشن پر کام کر رہی ہے کہ آئین کی معنویت ہی ختم ہو جائے ۔آئین کے تمہید سے "سیکولر” اور "سوشلسٹ” لفظ کو حذف کرنے کی سفارش آر ایس ایس نے ابھی حال ہی میں ایک بار پھر کی ہے ۔اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا مقصد کیا ہے ۔اور اب بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کرنے کے نام پر جو سازش الیکشن کمیشن کرنے جا رہی ہے اس کو دیکھ کر تو صاف نظر آنے لگا ہے کہ یہ این آر سی۔(نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) کی بدلی ہوئی شکل ہے ۔اور اس وقت کیا جا رہا ہے جب اسمبلی انتخاب کو چند ماہ باقی بچے ہیں ۔ایسے میں ایک بار پھر چہ میگوئیاں شروع ہو چکی ہیں کہ موجودہ سرکار اس جمہوری طرز حکومت کو کسی بھی قیمت پر بدلنے کی خواہاں ہے اور اس کے لئے نٹ نئے پروگرام تشکیل دے رہی ہے ۔آئین اور اس کی محافظ سپریم کورٹ سے کسی سرکار کی راہ کشی اور بار بار سپریم کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی اس سرکار کی ضد نے بھی اب یہ صاف کر دیا ہے کہ وہ ملک کے غریبوں، پسماندہ اور اقلیتوں کو کسی بھی قیمت پر انتخابی حق سے محروم کرنا چاہتی ہے ۔
جمہوریت کی روح عوامی شمولیت میں پوشیدہ ہے، اور ووٹر لسٹ میں شامل ہونا ہر بھارتی شہری کا بنیادی آئینی حق ہے۔ لیکن بہار میں حالیہ دنوں انتخابی فہرست کی نظرثانی کے نام پر جو کارروائی جاری ہے، اس نے اس حق پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ انتخابی کمیشن کی جانب سے جو نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں، وہ درحقیقت ووٹر اندراج کے نام پر ایک خاموش اور خفیہ این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔
اب ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہر شہری کو نہ صرف اپنی تاریخ اور مقامِ پیدائش، بلکہ اپنے والدین کی پیدائش کی مکمل تفصیلات بھی دستاویزات کی صورت میں فراہم کرنی ہوں گی۔ اگر کوئی شخص 02 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہوا ہے، تو اسے والدین کی تاریخ و مقامِ پیدائش کا بھی ثبوت دینا ہوگا۔ اور اگر والدین میں سے کوئی غیر ملکی ہے، تو اس کا پاسپورٹ اور ویزا بھی لازمی ہوگا۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایک عام شہری، خاص طور پر بہار جیسے غریب اور پسماندہ علاقے کے باشندے، جن میں سیلاب زدہ سیمانچل کے لوگ بھی شامل ہیں، اس معیار پر پورا اتر سکتے ہیں؟ وہ لوگ جو دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے والدین کی مکمل دستاویزات پیش کریں، ایک بےرحمانہ مذاق معلوم ہوتا ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ بھارت میں اب بھی تقریباً ایک چوتھائی پیدائشیں سرکاری طور پر رجسٹر نہیں ہوتیں، اور جو رجسٹر ہوتی بھی ہیں، ان میں غلطیوں کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ایسے میں اس قسم کی سخت شرائط لاکھوں غریب ووٹروں کو ووٹر لسٹ سے باہر کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔1995 کے معروف لال بابو حسین کیس میں سپریم کورٹ نے صاف طور پر کہا تھا کہ کسی بھی فرد کو، جو پہلے سے ووٹر لسٹ میں شامل ہو، بغیر اطلاع اور قانونی طریقہ کار کے فہرست سے نکالا نہیں جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ شہریت کے ثبوت کے لیے صرف محدود دستاویزات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا — ہر طرح کے شواہد کو قبول کیا جانا چاہیے۔
انتخابات سے صرف چند مہینے قبل ایسی سخت اور ناقابلِ عمل شرطیں عائد کرنا، نہ صرف آئینی اقدار کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے انتخابی کمیشن جیسے ادارے کی غیرجانبداری اور ساکھ پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی کمیشن اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، اور ووٹر لسٹ کو شفاف اور جامع بنانے کی آڑ میں شہریوں کو محروم کرنے کا یہ سلسلہ روکے۔ بصورتِ دیگر، اس خاموش این آر سی کے خلاف عوامی بے چینی میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔